وہ اس پورے نظام کے باغی تھے

170

نائب امیر جما عت اسلامی پاکستان

میرا منور حسن صاحب کے ساتھ ایک ایسا تعلق بھی رہا ہے جو میرے علاوہ شاید ہی کسی کا ہو۔ ہم آٹھ دس سال منور صاحب کے کرائے دار رہے ہیں۔ یہ تو کوئی نہیں رہا ہو گا اور میں اس وقت جمعیت میں نہیں آیا تھا۔ جمعیت میں ہم بعد میں آئے ہیں اور کرائے دار پہلے تھے اور کرائے دار ی کا واقعہ یہ ہے کہ میرے ماموں جماعت اسلامی کے رکن تھے اور وہ منور صاحب کے ساتھ جمعیت کے رکن بھی تھے ہمیں رہائش کی ضرورت تھی، تو میرے ماموں نے منور صاحب کے ساتھ بات کی۔ منور صاحب کا جو مکان تھا وہ فیملی والا تھا۔ ظاہر ہے ان کے والدین ان کے بھائی وغیرہ رہتے تھے۔ تو وہاں ہم شفٹ ہوئے اوپر ان کے 2 کمرے تھے اور ان پر ٹین کی چھت پڑی ہوئی تھی۔ تو میرا خیال ہے کہ ہم 8 سے 10 سال ان کے ساتھ ان 2 کمروں میں رہے ہیں۔ اور اس وقت میں جمعیت میں نہیں تھا۔ لیکن ظاہر ہے جب ہم ان کے کرائے دار ہی ہو گئے تو ان سے واسطہ تو پڑتا تھا۔ اس وقت میں اتنا چھوٹا تھا کہ میرا ان کی والدہ سے براہ راست تعلق رہتا تھا، یعنی میں اُن بچوں جتنا تھا جن سے عورتیں ابھی پردہ نہیں کرتیں۔ ان کی والدہ بڑی نیک اور تہجد گزار اور بڑی شاندار شخصیت کی مالک تھیں اور پورے محلے میں ان کی حیثیت گویا ایک پیرنی جیسی تھی اور پورا محلہ ان کا مرید تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ ذرا بریلوی خیالات کی تھیں۔وہ جماعت اسلامی سے اس طرح منسلک نہیں تھیں۔
مجھے ٹھیک سے یاد نہیں ہے کہ میں اس زمانے میں راتوں کوکس لیے پڑھتا تھا،شاید انٹر کا امتحان ہو رہا تھا۔ تو میں دیکھتا تھا کہ منور صاحب کبھی رات کو 2بجے گھر آ رہے ہیں، کبھی 3بجے آ رہے ہیں، 4بجے آ رہے ہیں۔لیکن فجر کی نمازمیں میں دیکھتا تھا کہ وہ موجود ہیں۔دوسری بات، بارش ہو، طوفان ہو، آندھی ہو وہ مسجدپہنچ جاتے۔ہم تو ذرا سی چھینٹ پڑ جائے تو گھر میں نماز پڑھ لیتے ہیں۔ رخصت تو ہے بھی،لیکن وہ رخصت والے آدمی نہیں تھے۔ ہر معاملے میںعزیمت والا راستہ اختیار کرتے تھے۔ اسی طرح میں نے انہیں بعد میں دیکھا کہ وہ سخت بیمار ہیں بخار ہے اور وہ پروگرام کرنے جا رہے ہیں۔ کہنے لگے میں نے طے کیا ہے، اور پہنچ جاتے۔
منور صاحب کو جمعیت میں لانے والے آصف صاحب تھے۔انہوں نے منور صاحب سے رابطہ شروع کیا، ان کو کتابیں وغیرہ دیتے تھے۔ اور منور صاحب نے بتایا کہ ہم کتابیں لیتے تھے، رکھتے تھے اور واپس کر دیتے تھے، بغیر پڑھے۔ ایسا کئی مرتبہ ہوا۔ پھر ایک روز آصف علی صاحب نے منور صاحب کو کہا کہ آپ ہیں بڑے ذہین۔ یعنی آصف صاحب ویسے تو بڑے خاموش تھے مگر ان میں حکمت بہت تھی۔ انہوں نے کہا آپ بڑے ذہین ہیں۔ یہ جو کتابیں ہیں یہ میری سمجھ میں نہیں آتیں، تو میرا خیال ہے کہ اگر آپ مجھے سمجھائیں گے تو مجھے سمجھ آ جائیں گی۔ تو انہوں نے پھر کوئی کتابچہ دیا اور کہا کہ یہ کتابچہ میں کل آپ سے سمجھوں گا۔ اب جب سمجھنے والا معاملہ ان پر ڈال دیا تو منور صاحب کو کتابچہ پڑھنا پڑا اور منور صاحب بتاتے ہیں کہ جب میں نے وہ پڑھا تو میرے تو 14 طبق روشن ہو گئے۔ اور مجھے سمجھ میں آ گیا کہ یہ کیا ہے۔یعنی یہ تو کوئی اور ہی چیز ہے۔ پھر ظاہر ہے ان کی نہ صرف پوری لائن، پوری گاڑی کی پٹڑی، غرض پوری زندگی بدل گئی۔وہ پہلے سوشل ازم کے علمبردار تھے اور این ایس ایف کراچی کے ذمہ دار رکن تھے۔ ظاہر ہے کہ جمعیت میں بھی آ گئے، جمعیت کا حلف بھی انہوں نے پڑھا۔اور ہم بھی پڑھتے ہیںلیکن اس نصب العین کے علاوہ پھر انہوں نے اپنی زندگی کا کوئی اور نصب العین رکھا ہی نہیں۔ پھر ظاہر ہے میں جمعیت میں آ گیا رکن بن گیا۔ہم تو پڑوسی تھے،ہم اوپر رہتے تھے، وہ نیچے۔ بہرحال میں تو چھوٹے چھوٹے پروگرام بھی ان سے کروا لیتا تھا۔ 10آدمیوں کا، 15 آدمیوں کاپروگرام اور وہ وقت دینے پر آمادہ ہو جاتے تھے۔
ظاہر ہے وہ تو ایک کھلا ڈلا ماحول ہوتا ہے، ترنم بھی ہوتا ہے، مجھے حیرانی اس بات پر ہے کہ ایک آدمی کے قدموں میں ساری دنیا ہے بادشاہی ہے پھر وہ دنیا کو ٹھوکر مار کر رہبانیت اختیار کر لے۔ منور صاحب کی کیفیت کچھ اسی طرح کی تھی کہ ساری دنیا،ہر طرح کی چیزیں میسر تھیں لیکن گویا انہوں نے ہر چیز کو ایک طرف کیا اور پھر وہ جو قل ان صلاتی و نسکی ومحیای و مماتی للہ رب العالمین حلف پڑھاتھا، بس پھر وہ اسی کے ہوکر رہ گئے۔ اور پھر اقامتِ دین ان کی ترجیحِ اول رہی۔ اقامتِ دین کو انہوں نے خود Career بنایا یعنی اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں چاہا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ہم کبھی منور صاحب کو لینے جا رہے ہیں پروگرام کے لیے تو ان کی چھوٹی بیٹی فاطمہ بالکل لپٹ کر رو رہی ہوتی تھی کہ ابو جان کہاں جا رہے ہیں۔
ان کو تو ظاہر ہے پروگرام میں جانا ہوتا تھا۔ یہی ان کی ترجیح تھی اور اسی کی خاطر انہوں نے اور ان کے خاندان نے خوب قربانیاں دیں۔ وہ اپنی والدہ کا بہت خیال رکھتے تھے مگر اس معاملے میںان کے ساتھ بھی کوئی سمجھوتا نہیںکیا۔
ان کی خواہش ہوتی تھی کہ دوسرے بھی تحریک کو اپنا مستقبل بنائیں،بالکل اس حدیث کے مطابق کہ جو اپنے لیے پسند کرو وہی دوسروں کے لیے پسند کرو۔ میں حلقے کا ناظم بنا پھر زون کا ناظم بنا۔ہمارا اسٹڈی سرکل عشا کے بعدسے شروع ہوتا تو تہجد تک چلتا، اتنی طویل نشستیں ہوتی تھیں۔ منور صاحب کے اسٹڈی سرکل کی ایک خاص بات یہ تھی کہ وہ ذہن سازی کرتے تھے، ذہن بناتے تھے۔ علمیت بگھارنے والی کیفیت نہیں تھی۔ لیکن نئی بات پیدا کرنا،نئے سوالات اٹھانا اور ساری چیزوں کا رخ موڑ کر اقامتِ دین کی طرف لے جانا۔ بس ان کی ترجیح یہی ہوتی تھی کہ جس طرح انہوں نے اقامتِ دین کو کیرئربنایا ہے، ہمارے لیے بھی وہ ایسے ہی چاہتے تھے کہ ہمارا کیرئربھی اقامتِ دین ہو جائے۔
منور صاحب کو دنیا سے جاتے وقت بھی دیکھا۔ جو مقصد اختیار کیا وہ پوری طرح یکسو ہو کر اس میں لگے رہے اور اسی راہ میں اپنی زندگی کا آخری لمحہ گزارہ۔! ٭٭