!کراچی تباہی کا منتظر شہر

389

کراچی میں جون کی شدید گرمی کے دوران چیف جسٹس پاکستان بھی کراچی کے رفاہی پلاٹوں کے مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے متعلقہ افسران پر غیر معمولی گرم نظر آئے۔ قوم خصوصاً کراچی والوں کی یہ خوش قسمتی ہے ملک کو چیف جسٹس گلزار احمد جیسا منصف اعلیٰ ملا جو ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے ساتھ کی جانے والی تباہی و بربادی کا احساس رکھتے ہیں اور اس شہر کے ساتھ کی جانے والی ناانصافی کا ازالہ کرکے اسے اصل کراچی بنانا چاہتے ہیں۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے وہ ان دنوں 15 سے 18 گھنٹے عدالتی امور انجام دے رہے ہیں۔ کراچی ہی نہیں بلکہ پورا پاکستان ان کا ہے مگر کراچی کے وہ بیٹے ہیں۔ عدالت عظمیٰ ہو یا عالیہ ان کا کام فیصلے کرنا اور فیصلوں کے حوالے سے احکامات دینا ہوتا ہے ان پر عمل درآمد کرانا حکومت اور متعلقہ اداروں کا کام ہوتا ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے چند روز کراچی میں مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’کراچی کے خلاف بہت بڑی سازش ہوئی، شہر کو تباہ کردیا گیا۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات سے متعلق مختلف مقدمات کی سماعت کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے تمام سرکاری زمینیں واگزارکرانے اور پرتعیش اپارٹمنٹس والے کثیر المنزلہ نسلہ ٹاور کو فوری گرانے کا حکم دے دیا۔ عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے کہ یہ ابتدا ہے، سب کچھ ٹوٹے گا، امتیاز اسٹور اور دیگر عمارتیں بنا کر تباہی مچا دی گئی۔ عدالت نے 3 ماہ کے اندر زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرانے کی ہدایت کر دی۔ چیف جسٹس نے سینئر رکن بورڈ آف ریونیو پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مزید وقت ہرگز نہیں دیا جائے گا، اگر عدالتی فیصلے پر عمل نہ ہوا تو آپ ذمے دار ہوں گے، یہ سب آپ لوگوں ہی نے تجاوزات کرائی ہیں، ایک ایک ذمے دار بندے کو پکڑیں گے، غیرقانونی لیز دینے والوں کے خلاف مقدمات درج ہوں گے۔
عوام کی خواہش ہے کہ چیف جسٹس جو کچھ فیصلے کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں اس پر متعلقہ ادارے من وعن عمل درآمد کریں۔ لیکن لوگ دیکھ رہے ہیں عدالت کے فیصلوں پر فوری تو کجا مہینوں اور برسوں گزرنے کے باوجود عمل درآمد نہیں کیا جاتا جس کی بڑی وجہ ایک دوسرے سے نتھی مافیاز اور ان کا منظم سسٹم ہے جس کے تانے بانے معاشرے کے کرپٹ عناصر اور جمہوریت کے چمپئنوں سے جاملتے ہیں۔ جب ملک میں کرپٹ سیاستدانوں کا غلبہ ہوجائے وہاں چاہنے کے باوجود ایمانداری اور اصولوں پر مبنی چند افراد کے لیے جگہ تنگ کردی جاتی ہے۔ چیف جسٹس ریٹائرڈ ہونے تک فیصلے کرسکتے ہیں اور ان پر عمل درآمد کے لیے دباؤ بھی ڈال سکتے ہیں لیکن مافیائوں کے اس شہر بلکہ ملک میں نئے چیف جسٹس کی آمد کے ساتھ عدالتوں کی ترجیحات تبدیل ہوجاتی ہیں۔ پھر ’’رات گئی بات گئی‘‘ کے مصداق سب کچھ فائلوں کے قبرستان نما کمروں میں دب جاتا ہے۔ عدالتوں کے ریکارڈ میں ہزاروں نہیں تو سیکڑوں ایسے مقدمات کے فیصلے ہوں گے جن پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔
2013 میں عدالت عظمیٰ نے ملک بھر کے سرکاری افسران و ملازمین کے بارے تاریخی فیصلہ کیا تھا جس کے مطابق ڈیپوٹیشن، آوٹ آف پروموشن، ایزروب کے فیصلوں کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا تھا لیکن اس فیصلے پر عمل درآمد کے لیے مسلسل کوشش کے باوجود آٹھ سال گزرنے کے باوجود عمل درآمد نہیں کرایا جاسکا۔ مذکورہ فیصلے پر عمل درآمد نہیں کرنے والے صوبوں میں سندھ سر فہرست ہے۔ عدالتوں کے سخت احکامات اپنی جگہ لیکن ایک حقیقی بدقسمتی یہ بھی ہے کہ معاشرے کے کرپٹ عناصر کو حکم امتناع بھی عدالتی نظام کے تحت ملتا ہے۔
کراچی کی سیکڑوں غیر قانونی عمارتیں یقینا ایسی ہوں گی جن کے لیے بلڈر مافیا نے حکم امتناع حاصل کرکے تعمیرات مکمل کیں۔ چیف جسٹس گلزار احمد کا یہ کہنا سو فی صد درست ہے کہ کراچی کے خلاف بڑی سازش کی گئی۔ شہر کے پارکس کا رقبہ متعلقہ اداروں کی ملی بھگت سے کم کرکے ہی نہیں بلکہ لے آوٹ پلان اور نقشوں میں رد وبدل کرکے وہاں غیر قانونی تعمیرات مکمل کرکے وہ سادہ لوح و ضرورت مندوں کو فروخت کردیا گیا۔ چیف جسٹس کی جانب سے تمام سرکاری زمینوں کا ریکارڈ طلب کرنے کا فیصلہ سب سے اہم ہے۔ اس سے سب کچھ سامنے آجائے گا۔ کراچی کو تباہ کرنے والی مافیا نے کراچی کی بلک واٹر سپلائی کی لائنوں پر بھی مکانات یا بنگلے تعمیر کرواکر ان کو ہمیشہ کے لیے خطرے میں ڈالا ہوا ہے تصور کیجیے کہ 12، 14، 24 اور 36 انچ قطر کی پانی کی لائنوں کے اوپر بڑے بڑے بنگلوز موجود ہوں گے تو وہاں پائپ لائن پھٹنے سے کیا کچھ ہوسکتا ہے۔ اسکیم 33 ہی نہیں کراچی کی مختلف اراضی پر نظر آنے والے خوبصورت بنگلے دراصل پانی بڑی لائنوں پر تعمیر ہیں۔ چیف جسٹس جسٹس گلزار احمد سے گزارش ہے کہ وہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے محکمہ لینڈ سے بھی زمینوں اور ان کی موجودہ صورتحال کے بارے میں تفصیلی ریکارڈ طلب کریں تاکہ معلوم ہوسکے کہ ہزاروں افراد کی جانے کس طرح پانی کے نظام کے اوپر ہیں جبکہ کے ڈی اے سے معلوم کیا جائے اصل ماسٹر پلان کے مطابق اب کس زمین پر کیا تعمیرات ہیں۔