گلستان جوہر میں کھڑی مشکوک گاڑیاں

612
FILE

ملک کے ایک ممتاز مصنف و دانشور اور ملک و بیرون ملک کی ممتاز یونیورسٹیوں میں تدریس اور تحقیق میں عالمی شہرت رکھنے والے پروفیسر اور سینکڑوں مقالات اور کتابوں کے مصنف ڈاکٹر معین الدین عقیل گلستان جوہر کے بلاک 15 میں مکان نمبر B-215 میں رہتے ہیں۔ ان کے گھر کے سامنے چار ایکڑکے پلاٹ ST32 پر ایک کھلا پارک اور  پلے گراؤنڈ تھا جس میں عیدین کی نمازیں پڑھی جاتی تھی یعنی یہ عیدگاہ تھی۔اس پارک کی وجہ سے پروفیسر صاحب نے یہاں رہنا پسند کیاتھا اور بڑے شوق سے گھر بنایا تھا۔

 زندگی سکون سے گزررہی تھی لیکن بدقسمتی سے اس پارک پر ناجائز قبضہ ہوگیا اورسوسے زائد  ٹیڑھے میڑھے بے ترتیب مکانات بن گئے جس سے علاقے کی رونق اور سکون متاثر ہوگیا۔ پھر مزید ستم یہ ہوا کہ ان کے گھر کے پیچھے بھی ایک چھوٹا پارک ST33 تھا جو ان کے پڑوس کے مکانات B-212 سے B-220کے پیچھے واقع ہے لیکن یہاں بھی علاقے کی بدقسمتی سے قبضہ ہوگیا اور شاید ناجائز طور پر خود کے ڈی اے کے افسران کی ملی بھگت سے اس پارک پر بھی کئی مکانات جیسے : R-10,1,2,3 بن گئے اور علاقے میں مزید مسائل شروع ہوگئے۔ شنیدہ ہے کہ ان رہائشیوں میں کے ڈی اے کے سرکاری ملازم بھی ہیں جس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ سرکاری ملازم ہوتے ہوئے انھوں نے ایک پارک کی زمین پر کیسے قبضہ کیا اور گھر بھی تعمیر کیا اور رہائش پذیر بھی ہیں! یقینا” اس قبضے اور مکانات کی تعمیر جعلی کاغذات کی مدد سے ہوئی ہوگی۔ اس اقدام پر تو NAB اور FIA کے مقدمات بن سکتے ہیں! اب کچھ ہفتوں سے ایک تشویش ناک صورت یہ پیدا ہوئی ہے کہ پروفیسر صاحب کے گھر B-215 کے پیچھے  کھلی جگہ پر کچھ کاریں کسی اطلاع اور اجازت کے بغیر مذکورہ گھروں کے مکینوں نے کھڑی کی جانے لگی ہیں جو مشکوک اس لیے لگتی ہیں کہ وہ کاریں اپنے مالکوں کے گھروں کے سامنے کھلی جگہ کے موجود ہونے پر کھڑی کی جاسکتی تھیں لیکن وہ پروفیسر صاحب کے گھر کے پیچھے کھڑی کی جانے لگیں! وہ مشکوک اس لیے بھی لگیں کہ کہیں وہ کسی کارروائی میں تو استعمال نہیں ہورہیں اور بعد میں اپنے گھروں کے بجائے انھیں دور کھڑا کرنا ضروری سمجھا جاتا ہو؟

اس امکانی خطرے کو محسوس کرتے ہوئے اور احتیاط اور تحفظ کی خاطر پروفیسر صاحب نے اپنے گھر کے پیچھے اپنی حدود میں واقع بیس سال پرانی ایک بہت پرانی اور خستہ حفاظتی دیوار کی مرمت کرانی  شروع کی تو ST 33 کے رہائشیوں نے ایک طوفان کھڑا کردیا اور ازخود کسی مجاز اتھارٹی کی اجازت اور قانون کے بغیر خود ہی اس دیوار کو ڈھا دیا! اور پھر سے اپنی گاڑیاں کھڑی کرنی شروع کردی ہیں۔

مزید ستم یہ کہ ان ہی رہائشیوں میں سے کسی نے کسی سے کہتے سناہے کہ اب وہ وہاں ان گاڑیوں کے کھڑا کرنے کے لیے ایک ہال بھی تعمیر کرنا چاہتے ہیں! یہ مزید افسوس ناک اور غیرقانونی عمل ہوگا اور جیسا کہ سننے میں آتا ہے کہ گلی کوچوں میں اس طرح کے مقامات کو لوگ منفی اور غیرقانونی کارروائیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں اور ان میں نشہ اور منشیات اور جوئے کے اڈے بن جاتے ہیں اور جرائم کا ایک مرکز وجود میں آجاتا ہے جو علاقے کے لیے تباہ کن ہوتا ہے۔

اس صورت حال میں تمام متعلقہ ذمے دار اداروں کی جانب سے ایک بہت مناسب اقدام یہ ہوسکتا ہے کہ :

(۱) ذمے دار ادارے ST33 کو خالی کرائیں اور اس جگہ کے ڈی اے کے منصوبے کے عین مطابق موجودہ تعمیرات کو منہدم کرائیں اور منظور شدہ اولین منصوبے کے مطابق پارک کی تعمیر کو یقینی بنائیں؛

(۲) جن شرپسنددں نے کسی اختیار ومنظوری اوراجازت کے بغیر پروفیسر صاحب کے گھر کی پشت پر موجودحفاظتی دیوار کو منہدم کیا ان کا پتا لگا کر انھیں سزا دی جائے؛

(۳) چوں کہ دیوار گرانے والے بظاہر کے ڈی اے کے ملازم ہیں اس لیے اس غیرقانونی اقدام کی تلافی کے ڈی اے کو کرنی چاہیے اور دیوار کو دوبارہ کے ڈی اے کی جانب سے حسب سابق تعمیر کرانا چاہیے۔

ہماری قوم اگر اپنے محسنوں کی قدرو ستائش نہیں کرسکتی تو انھیں مصائب و مشکلات میں تو گرفتار نہیں کرنا چاہیے!