طعنہ برداشت نہیں‘ لیکن ترقی کہاں ہے؟

487

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے بڑے زور دار انداز میں کہا ہے کہ سندھ میں ترقی نہ ہونے کا طعنہ برداشت نہیں۔ لوگ نالوں میں خوشی سے نہیں رہتے، ہم کسی کے کہنے پر آئینی حقوق پر سودے بازی کے لیے تیار نہیں، صوبوں کے معاشی حقوق وفاق سے چھین لیں گے۔ یہاں اتنا کام ہوا کہ کوئی بزدار اور عمران خان نہیں کرسکتے۔ سندھ میں کٹھ پتلی بھی آکر تنقید کرتے ہیں۔ بانی متحدہ والی سیاست کی اجازت نہیں۔ بلاول صاحب کا مطالبہ یہ تھا کہ کسی کو الطاف حسین والی سیاست نہیں کرنے دیں گے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کورونا کے باوجود صوبے میں معاشی انقلاب لائے ہیں۔ کہنے اور سننے میں یہ باتیں زور دار ہیں لیکن حقائق کیا ہیں اس کے لیے کسی لمبی چوڑی تحقیق کی ضرورت نہیں۔ سندھ کے عوام 1969ء سے ایک نعرے روٹی، کپڑا اور مکان کے پیچھے بھاگ رہے ہیں لیکن 52 برس میں انہیں روٹی، کپڑا، مکان تو نہ ملا بلکہ جن کے پاس تھا وہ بھی چھینا جارہا ہے۔ بلاول نے دعویٰ کردیا کہ سندھ میں اتنا کام ہوا ہے کہ بزدار اور عمران بھی نہیں کرسکتے تھے۔ بات اس حد تک تو درست ہے کہ بہت کام ہوا ہے لیکن کہاں اور کس شعبے میں وہ الگ بات ہے۔ حکمران طبقہ پہلے سے زیادہ امیر ہوا ہے۔ ان کی زمینیں اور کاروبار زیادہ محفوظ ہوئے ہیں۔ کورونا پابندیوں کے دوران عوام کو دکانیں کھولنے سے روک دیا گیا تھا، بازار جانا بند تھا، مسجد، اسکول، مدرسے بند تھے لیکن جب فصل کٹائی کا وقت آیا تو سارے حکمرانوں کی زمینوں کا مشترکہ مفاد تھا لہٰذا فصل کٹائی کی اجازت دے دی گئی۔ کیسے ایس او پیز کہاں کے فاصلے۔ یہ سندھ کی نہیں حکمرانوں کی معیشت مستحکم رکھنے کے لیے ضروری تھا۔ سندھ میں چند بڑی شاہراہیں بنادی گئی ہیں، لیکن کیا بھٹو صاحب کے دعوے کے مطابق لاڑکانہ پیرس بن گیا ہے؟ زرداری صاحب نے نواب شاہ کو لندن بنادیا ہے؟ سندھ کے گائوں دیہات کو بجلی مل گئی ہے، روزگار کا کیا حال ہے، صحت کی صورت حال کیوں تباہ ہے، اسپتالوں کا حال اس قدر خراب ہے کہ ڈاکٹر ہے نہ عملہ اور نہ دوائیں۔ جہاں اسپتال ہیں ان سے وہاں کسی چیز کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ سندھ میں کتے دندناتے پھر رہے ہیں۔ شہروں سے جا کر این جی اوز خدمت انجام دے رہی ہیں۔ صحت کی سہولیات بنیادی ذمے داری ہے جو حکومت کو ادا کرنی چاہیے اس کا کوئی خیال نہیں۔ امن وامان کون سا اچھا ہے، بلاول نے جن نالوں پر رہنے کی بات کی ہے ان کی حکومت سے بھی پوچھا جانا چاہیے کہ نالوں پر رہائش کیسے بن گئی۔ پارکوں میں چائنا کٹنگ کیسے ہوگئی۔ بھٹو تو زندہ ہے اسے بلا کر پوچھیں کہ لاڑکانہ پیرس کب بنے گا۔ سندھ کے حصے کے نام پر جو رقوم وصول کی جاتی ہیں وہ کیسے کہاں ٹھکانے لگائی جاتی ہیں۔ بلاول کہتے ہیں کہ سندھ میں ترقی نہ ہونے کا طعنہ برداشت نہیں لیکن ترقی نہ ہونے کے نتیجے میں عوام جس عذاب سے دوچار ہیں وہ کیسے یہ غیر انسانی زندگی برداشت کریں۔ اندرون سندھ بجلی، گیس، سڑکیں، سیوریج نہیں ہے، کسی بھی پارٹی کو تسلسل مل جائے تو وہ اپنے علاقے کو ترقی دیتی ہے لیکن پیپلز پارٹی ایسی پارٹی ہے کہ اس صوبے میں اسے نصف درجن مرتبہ حکومت مل چکی ہے، گزشتہ دس بارہ برس سے مسلسل اس کی حکومت ہے کوئی رکاوٹ نہیں ہے لیکن صوبے کی حالت ویسی نہیں جیسی پہلے تھی بلکہ اس سے بھی بدتر۔ بلاول نے الطاف حسین کی سیاست کا ذکر کیا ہے۔ لیکن وہ بھی تو قوم پرستی کارڈ کھیلتے رہتے ہیں، الطاف حسین نے شہری سندھ میں جتنی بھی سیاست کی وہ انہوں نے پیپلز پارٹی کے بھرپور تعاون سے کی، اگر یہ سیاست بند ہوئی تو پیپلز پارٹی کی دکان بھی بند ہوجائے گی۔ اب وہی دکانیں پی ٹی آئی اور پی پی نے کھول لی ہیں ایک دوسرے پر الزامات، عصبیت کے نعرے اور کراچی ہمارا ہے اور سندھ ہمارا ہے کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔ سندھ حکومت پر تنقید کو جرم بنادیا گیا ہے۔ پی پی سندھ دھرتی کو ماں کا درجہ دیتی ہے لیکن ماں کے ساتھ سلوک بہت خراب کرتی ہے۔ پی ٹی آئی کے تو کیا کہنے وہ کراچی کو اپنا گڑھ کہتے ہیں لیکن جس طرح ایم کیو ایم مصنوعی طور پر مسلط کی گئی تھی اسی طرح یہ بھی مسلط کیے گئے ہیں۔ ایم کیو ایم نے پنجے زیادہ ہی گاڑ لیے تھے جنہیں چھڑانے میں کئی برس لگے۔ لیکن اس کا بھی کچھ پتا نہیں اسے دوبارہ بھی لایا جاسکتا ہے۔ بلاول صاحب نے عدلیہ سے اپنے فیصلے پر نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے ضرور کیا جائے کیونکہ یہ مطالبہ تو سب ہی کررہے ہیں لیکن عدلیہ ان نالوں پر تجاوزات قائم کرنے والوں کو، غلط این او سی دینے والوں یا سرکاری زمین پر قبضہ کرانے والے سرکاری اہلکاروں کے خلاف بھی کارروائی کرے۔ بلاول صاحب یہ بھی بتادیں کہ کیا کراچی کے گوٹھوں کو خالی کراکے ملک ریاض نے اکیلے ہی بحریہ ٹائون بنالیا تھا یا اسے سرکار کی سرپرستی حاصل تھی۔ سارے ناجائز کام کرکے بھی پیپلز پارٹی اور اس کے چیئرمین کہتے ہیں کہ آئینی حقوق پر سودے بازی نہیں کریں گے۔