فلسطین میں تیل و گیس کے بڑے ذخائر، پھر بھی معاشی زبوں حالی کیوں؟

236

اسرائیل کے ماضی قریب میں ہوئے غزہ پر فوجی حملے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی وسیع تباہی کے بعد عالمی برادری نے غزہ پٹی کی تعمیر نو میں لاکھوں ڈالرز کی امداد کا وعدہ کیا۔ تاہم اسرائیل اور فلسطین کے مابین تنازعہ کا حتمی خاتمہ فلسطین کی معاشی اور انسانی ترقی میں طویل مدتی سرمایہ کاری کے بغیر ممکن نہیں۔ اور اس کیلئے ضروری ہے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں تیل اور قدرتی گیس کے ذخائر (جس کی استحصالی اسرائیل کے ہاتھوں جاری ہے) سے حاصل ہونے والے فوائد میں سے فلسطین کیلئے منصفانہ حصہ مختص کیا جائے۔

تجارت اور ترقی سے متعلق اقوام متحدہ کی کانفرنس (یو این سی ٹی اے ڈی) کی ایک حالیہ تحقیق میں نشاندہی کی گئی ہے کہ مقبوضہ علاقے لیوانت میں قدرتی گیس کی نئی دریافتیں 122 کھرب مکعب فٹ تک ہیں جب کہ بازیافت تیل کا تخمینہ 1 ارب 70 کروڑ بیرلز ہیں۔

اسرائیلی فوج کے 1967ء سے فلسطینی علاقوں پر قبضے اور 2007 کے بعد سے غزہ کی ناکہ بندی نے فلسطینی عوام کو اپنے قدرتی وسائل پر حق جتانے سے روک دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطین ابھی تک مالی وسائل، برآمدات و درآمدات اور معاشی ترقی میں مکمل خودمختار نہیں ہوسکا ہے۔

فلسطینی عوام کا قابض ریاست کی وجہ سے کیا کیا معاشی نقصان ہورہا ہے سب کی دستاویزات موجود ہیں: لوگوں اور سامان کی نقل و حرکت پر سخت پابندیاں۔ جائیداد اور اثاثوں کی ضبطی اور تباہی۔ زمین ، پانی اور دیگر قدرتی وسائل کا نقصان و استحصال۔ بےضابطہ اور غیر مستحکم داخلی پیداوار ، پڑوسی اور بین الاقوامی منڈیوں سے علیحدگی اور اسرائیلی بستیوں کی غیر قانونی توسیع۔ ان سارے مسائل سے فلسطینی دوچار ہیں۔