چودھری عزیر لطیف: ایک قائد ایک راہنماء

382

جماعت اسلامی صوبہ پنجاب کے سابق نائب امیر، جماعت اسلامی پاکستان کے سابق رکن مرکزی مجلسِ شوریٰ، خانیوال میں جماعت اسلامی کی پہچان، دینی اور علمی مجلسوں کی رْوحِ رواں، ہزاروں طلبہ وطالبات کے اْستاد اور مْربّی جناب چودھری عْزیر لطیف کو ہم سے جْدا ہوئے ایک سال بیت گیا ہے چودھری صاحب کی وفات حسرتِ آیات، میرے لیے اس قدر صدمے کا باعث بنی کہ شدید خواہش اور تمام کوشش کے باوجود میں اْن کے بارے میں اپنے احساسات قلم بند کرنے سے قاصر رہا، چودھری صاحب کے داماد اور جہانیاں میں جماعت اسلامی کے جواں سال رْکن برادرِ عزیز وسیم الغنی نے بوقت ِ ملاقات اور سوشل میڈیا کے ذریعے اظہار کیا کہ ’’چودھری عزیرلطیف صاحب کے متعلق آپ کی تحریر کا شدت سے انتظار ہے‘‘ لہٰذا اب مرحوم کی برسی کے موقع پر چند معروضات پیشِ خدمت ہیں۔
چودھری صاحب سے میری پہلی ملاقات اور تعارف جامع العلوم ملتان میں 1985 میں ہوا، میں اْس وقت میٹرک کا طالب علم تھا اور اسلامی جمعیت طلبہ کی زونل تربیت گاہ میں حافظ خالد رؤف صاحب کی دعوت پر شرکت کے لیے ملتان گیا، خانیوال ہی سے ایک دراز قامت نوجوان اور پْر جوش مْقرر نذر حسین سنپال ملتان زون کے ناظم تھے، چودھری عزیرلطیف نے ’’قافلۂ جمعیت منزل بمنزل‘‘ کے موضوع پر جب خطاب کرتے ہوئے البدر اور الشمس کے جوانوں کی قربانیوں کی داستانِ خونچکاں، اپنی خطیبانہ اور مجاہدانہ شان سے بیان کی تو ہر شریکِ محفل چشمِ نم اور، دلِ گریہ کے ساتھ فرطِ جذبات سے پْرجوش نعرے لگا رہا تھا، اس خطاب کے بعد میں نے چودھری صاحب سے مصافحہ کیا اور پھر اْن کی دنیا سے رْخصتی تک میرا ہاتھ اْن کے ہاتھ میں ہی رہا، عزیر صاحب اسلامی جمعیت طلبہ کی اْن نابغۂ روزگار شخصیات میں شامل ہیں جنہوں نے اپنے خونِ جگر سے اس پودے کی آبیاری کی۔ خانیوال، ملتان فیصل آباد کی مختلف تعلیم گاہوں سے علم کے موتی اپنے دامن میں جمع کرنے والے عزیر صاحب ہرجگہ دعوتِ دین، ابلاغِ دین اور اقامتِ دین کی جدوجہد میں ہمہ تن مصروف رہے، فیصل آباد زون، سرگودھا زون، ملتان زون کے ناظم رہے، وہ راشد نسیم، سید شاہد ہاشمی، حسن صہیب مْراد، معراج الدین خان اور شبیر احمد خان کے ساتھ جمعیت کی مرکزی مجلس شوریٰ کے رْکن بھی رہے۔
جب جنرل ضیاء الحق کے دورِ آمریت میں اسلامی جمعیت طلبہ کو کالعدم قرار دیکر اسٹوڈنٹس یونینز پر پابندی عائد کر دی گئی تو جمعیت نے اس پابندی کے خلاف مزاحمت اور جدوجہد کرنے اور تحریک چلانے کا فیصلہ کیا… ابتلا اور آزمائش کے اِن ماہ وسال میں عزیر صاحب کے پائے استقامت میں ذرا برابر بھی لغزش نہ آئی، دورانِ تحریک عزیر صاحب جمعیت کے قائم مقام ناظمِ صوبہ تھے اور بوٹوں کی سرکار کے خلاف تحریک کو جاری رکھنا عزیمت کے سفر کا لازمی تقاضا تھا، روزانہ کی بنیاد پر احتجاج کے نت نئے طریقے سوچ کر اورجان ہتھیلی پر رکھ کر میدان عمل میں نکلنا دل گردے کا کام تھا اور عزیر صاحب نے یہ فریضہ اپنے لبوں پر یہ نغمہ سجاکر خوشی خوشی انجام دیا کہ
راہِ وفا میں ہر سْو کانٹے، دھوپ زیادہ سائے کم
لیکن اس پر چلنے والے خوش ہی رہے پچھتائے کم
دورانِ تحریک ایک احتجاجی پروگرام کے لیے دن، وقت اور مقام طے کیا جاچکا تھا اور عزیر صاحب نے خانیوال سے فیصل آباد پہنچنا تھا، ابھی گھر سے نکلنے والے ہی تھے کہ اْن کے والدِ محترم چودھری عبدالستار کو ہارٹ اٹیک ہوگیا، اس کیفیت میں دونوں جانب ایک نازک معاملہ تھا، والد صاحب کو اس حال میں چھوڑتے ہیں تو دل پر بوجھ اور والدہ اور بہن کی آنکھوں میں تیرتے آنسو زنجیرِ پا بن رہے ہیں اور اگر فیصل آباد نہیں جاتے تو نہ صرف یہ تاثر بنے گا کہ گھبرا گئے بلکہ پروگرام نہ ہونے سے پوری تحریک پر بہت منفی اثرات مرتب ہوں گے، عزیر صاحب نے اللہ کی جناب میں دست ِ دْعا بلند کرکے اپنی حاجت پیش کی اور اگلے ہی لمحے اْنہیں یہ سکینت حاصل ہوگئی کہ ’’مجھے فیصل آباد جانا ہے‘‘ اور وہ والدہ اور بہن سے بہ اصراراجازت لیکر روانہ ہوگئے۔ اللہ نے اْس مرحلے پر عزیر صاحب کے والدِ گرامی کو صحت عطا فرمادی۔
عزیر لطیف صاحب بہت بلند پایہ خطیب ِ اور مقرر تھے، تقریری مقابلوں، مباحثوں اور مذاکروں میں ہر بار پوزیشن حاصل کرتے رہے، بیت بازی کے مقابلے ہمیشہ جیت کر آتے، ہزاروں اشعار اْن کے حافظے میں محفوظ تھے، اْن کی انتظامی صلاحیتیں ہمیشہ قابلِ رشک رہیں، وہ بہترین منتظم تھے، بڑے سے بڑا چیلنج قبول کرنے کی خوبی بہت نمایاں تھی، پورے ملک میں جماعت اسلامی، اسلامی جمعیت طلبہ، جمعیت طلبہ عربیہ اور دیگر برادر تنظیمات اپنے تربیتی کیمپ صحت افزاء مقامات پر منعقد کرتی ہیں، شاید یہ بات قارئین کے لیے معلومات میں اضافے کا باعث بنے کہ اس مبارک سلسلے کا آغاز جناب عزیر لطیف نے فرمایا تھا، 1983 سے اب تک ہونے والی ہزاروں تربیت گاہیں اور مستقبل میں ہونے والے ایسے پروگرام عزیر صاحب کے لیے ان شاء اللہ صدقہ ٔ جاریہ بنتے رہیں گے، عزیر صاحب ایک طویل عرصے تک اسلامی جمعیت طلبہ کے صفِ اول کے مْربّین میں شامل رہے اور تادمِ زیست نت نئے طریقوں سے کارکنان کی تربیت میں مصروف رہے، اہلِ نظرعْزیر صاحب کی اس صلاحیت کے مْعترف ہیں کہ وہ بہت مردم شناس راہنماء تھے، کسی بھی اجتماع یا اجلاس میں شرکت کے بعد اپنے مطلوبہ افراد کی سلیکشن کے بعد کہتے کہ ’’اس کام کے لیے فلاں شخص بہت موزوں ہے‘‘۔
عْزیر صاحب کو اللہ تعالیٰ نے ایسا عزم اور ولولہ عطا کیا تھا کہ وہ اہداف طے کرکے عملدرآمد کا پلان تشکیل دیتے اور مستقل مزاجی سے اپنے کام میں مگن رہتے، منفی سوچ سے اپنے آپ کو ہمیشہ دور رکھتے، جب کوئی سخت فیصلہ کرنے کا مرحلہ آتا تو بہت سارے تحفظات کو خاطر میں لائے بغیر فیصلہ کر گزرتے، ہمیشہ قوت ِ فیصلہ کا مظاہرہ کرتے، جرأت مندی سے اپنے مؤقف کا اظہار کرتے، میں بعض ایسے واقعات کا عینی شاہد ہوں کہ اْنہوں نے تنظیمی، جماعتی اور سیاسی معاملات میں ایسے فیصلے کیے جن کے نتیجے میں اْن کے بہت اچھے ذاتی اور خاندانی تعلقات داؤ پر لگ گئے لیکن اْنہوں نے وَلَا یَخَافْونَ لَومَۃَ لَائم، کے مصداق ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا، امیرِ ضلع خانیوال کی ذمے داری سنبھالنے کے بعد دن رات ایک کرکے کام کیا، اپنی پْرکشش معاوضہ والی اچھی ملازمت کو خیرباد کہا، بڑا قدم اْٹھایا اور ویرانے میں ایک ادارہ بنانے کا فیصلہ کیا، یہ بڑا مشکل اور عجیب فیصلہ تھا لیکن پْرعزم اور باہمت عزیر صاحب نے جنگل میں منگل کا سماں پیدا کردیا، غزالی ایجوکیشنل انسٹی ٹیوٹ، خانیوال کا بڑا تعلیمی ادارہ بن گیا، ملتان بورڈ میں اس ادارے کے طلبہ وطالبات کی پوزیشن نے بہت سے لوگوں کو حیران کردیا، مسجد کی تعمیر، جماعت اسلامی کے اجتماعات عام، فیملی فیسٹیول، عیدملن تقریبات، اْمرائے جماعت قاضی حسین احمد، سید منورحسن، سراج الحق اور تمام مرکزی، صوبائی ذمے داران کی میزبانی، ارکانِ جماعت، دوست واحباب، عزیزوں اور رشتہ داروں کی خدمت… یہ سب کچھ اسی مرکز میں عزیر لطیف صاحب کے دم قدم سے جاری رہا، اْن کی اہلیہ اور بیٹوں معاذ عزیر اور معوذ عزیر اور بیٹیوں نے فرمانبرداری کا حق ادا کرتے ہوئے اْن کو بھرپور سپورٹ فراہم کی اور اللہ کا فضل و کرم ہے کہ یہ مرکزِ علم و عرفان اْن کے لائق فائق ورثا کی کمٹمنٹ کے باعث صدقہ ٔ جاریہ بن گیا ہے۔
عْزیر صاحب نے تین سال نائب قیمِ صوبہ کی حیثیت سے اْس وقت کے امیر صوبہ حافظ محمد ادریس اور قیم صوبہ اظہراقبال حسن کے ساتھ، بعد ازاں ڈاکٹر سید وسیم اختر مرحوم اور میاں مقصود احمد کے ساتھ نائب امیرِ صوبہ پنجاب کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں بحسن وخوبی سرانجام دیں، جنوبی پنجاب میں جماعت کے کام کی بڑھوتری، ترقی اور مضبوطی کے لیے اْنہوں نے شب و روز ایک کرکے کام کیا، مسلسل 5مرتبہ فورٹ منرو میں جنوبی پنجاب کے ذمے داران کے لیے لیڈر شپ ٹریننگ کیمپ منعقد کیے، اور یہ پروگرام تمام اضلاع میں نئی لیڈر شپ سامنے لانے کا ذریعہ بنے، ہر ضلع سے بیس بائیس چنیدہ افراد کے لیے نصاب کی تیاری، مرکزِ جماعت کی گائیڈ لائن کی روشنی میں لائحہ ٔ عمل، راہنمائی اور باہمی رابطہ، یہ سب کچھ اْن کی سوچ بچار اور محنت کے باعث انجام پاتا رہا، میں اور راؤ ظفر اقبال صاحب اْن کے ٹیم رکن کے طور پر کام کرتے رہے، اس عرصے میں اللہ کے فضل و کرم سے کبھی بھی کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا، فورٹ منرو مرکز کے آئیڈیا، رقبہ کی خریداری، تعمیر، تکمیل، افتتاح اور توسیع میں ہر قدم پر عْزیر لطیف صاحب کا بھرپور تعاون، سرپرستی، حوصلہ افزائی، راہنمائی، مشورے اور پْرخلوص دعائیں شاملِ حال رہیں، یہ مرکز بھی چودھری صاحب کے لیے صدقہ ٔ جاریہ کے طور پر موجود ہے، وہ تو اپنی نذر پوری کر کے وقت مقررہ پردنیا سے تشریف لے گئے لیکن اس مرکز میں تربیتی کیمپوں، نمازِ جمعہ، رمضان المبارک میں تراویح اور آنے والے مہمانوں کی سہولت کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔
عْزیر صاحب نے ایک ماہرِ زراعت کی حیثیت سے بھی اپنی بہترین صلاحیتوں کا خوب لوہا منوایا، فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی سے ایم ایس سی آنرز کرکے گولڈ میڈل حاصل کرنے والے ذہین وفطین شخص نے اپنے زرعی رقبے پر نت نئے کامیاب تجربات کیے، فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کیا، بہاولنگر میں جماعت اسلامی کے نام وقف کی گئی تقریباً دس مْربع اراضی کے اْلجھے ہوئے تمام معاملات کو مرکزِ جماعت سے سید منور حسنؒ اور لیاقت بلوچ کی ہدایت پر حاجی طفیل وڑائچ صاحب اور سابق ایم این اے حاجی جاوید اقبال چیمہ کی رفاقت میں اپنے ناخْنِ تدبیر سے اس طرح سْلجھایا کہ اب یہ اراضی الحمدْللہ کروڑوں روپے کی سالانہ آمدن کا ذریعہ بن گئی ہے، معطی کی ہدایات پر عمل درآمد کا قابلِ عمل اور اطمینان بخش میکینزم تشکیل دیا، اس شاندار خدمت پر مرکزِ جماعت سے عزیر صاحب کی بھرپور تحسین کی گئی، مرحوم کئی مرتبہ مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رْکن منتخب ہوئے، میں 12 سال تک شوریٰ کے اجلاس میں اْن کا ہم نشین رہا، وہ ایجنڈے پر اچھی طرح تیاری کے ساتھ شرکت کرتے، اپنا مؤقف پوری وضاحت اور دلیل کے ساتھ پیش کرتے، بعض معاملات میں اْن کی تجاویز یاخط ایسا شاہکار ہوتا کہ شوریٰ کے ارکان اور ذمہ داران بار بار اْن کا حوالہ دیتے، وہ اپنی رائے پر کبھی اصرار نہ کرتے، اجتماعی فیصلے کے بعد ہمیشہ اپنی رائے سے دستبردار ہوجاتے،
عزیر صاحب عارضی زندگی کے لمحات کی قدر وقیمت سے خوب واقف تھے، اسی لیے وہ ہمیشہ اپنے مشن کی تکمیل میں مصروف رہتے، فکرِ آخرت اور جنت کی زندگی اْن کے پسندیدہ موضوعات تھے، یہی وجہ ہے کہ وہ جس عرصے میں کسی تنظیمی ذمے داری پر نہ ہوتے تب بھی اپنے بنیادی یونٹ میں کام میں لگ جاتے، کار سے موٹر سائیکل پر آتے ہوئے اْنہیں کبھی مسئلہ پیش نہیں آیا، اپنے محلے اور یونین کونسل میں لوگوں کے ساتھ گْھل مِل کر رہتے، درسِ قرآن مجید، اسٹڈی سرکل، فہمِ قرآن کلاسز، افطار کے پروگرام، جنازوں اور قرآن خوانیوں میں شرکت، عوامی مسائل کے حل کے لیے احتجاج، انتظامیہ سے ملاقاتیں، اہلِ خاندان اور ضلع خانیوال کے ساتھیوں کی خبر گیری، معاشی اعتبار سے کمزور ساتھیوں کے ساتھ ہر ممکن مالی اوراخلاقی تعاون… اِن اوصاف نے عْزیر صاحب کو کوئی تنظیمی ذمے داری نہ ہونے کے باوجود بہت بڑا ذمے دار بنادیا تھا۔
عْزیر صاحب نے ہمیشہ اس بات کی کوشش کی کہ جو کام میں کررہا ہوں، اِسے سرانجام دینے کے لیے کوئی اور فرد متبادل کے طور پرتیار ہوجائے، انہوں نے اپنی زندگی کے آخری دو تین سال میں اپنے تمام معاملات اپنے متبادل لوگوں کے سپْرد کردیے، اپنے گھر اور ادارے کے تمام امور سے خود کو حکمت سے علٰیحدہ کرتے گئے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ عزیر صاحب کے جانشینوں کو اْن کے چلے جانے کے بعد کوئی بڑا مسئلہ پیش نہیں آیا، وہ اپنے اہلِ خانہ کے لیے ایک شجرِ سایہ دار اور کڑکتی دھوپ میں برگد کے درخت کی مانند تھے۔۔ شفقت، محبت اور اپنائیت سے اپنے چمن کی ایسی آبیاری کی جس پر لوگ رَشک کرتے ہیں، ماشاء اللہ اْن کی اہلیہ جماعت اسلامی حلقہ خواتین کے پلیٹ فارم سے اقامت دین کی کاوشوں میں مصروف ہیں، دونوں بیٹے حافظِ قرآن ہیں، معاذ عزیر نے ایک طرف اْن کا ادارہ سنبھالا ہوا ہے اور دوسری طرف جماعت اسلامی خانیوال شہر کے امیر کی حیثیت سے ذمے داریاں ادا کررہے ہیں، معوذ عزیر اسلامی جمعیت طلبہ کی مرکزی ٹیم میں شامل ہیں، پیغام ڈائجسٹ کے ایڈیٹر ہیں اور تعلیمی میدان میں شاندارکارکردگی کے ساتھ پائلٹ بننے کی دْھن میں مگن ہیں، دونوں بیٹیوں کی اچھی تعلیم و تربیت اور بروقت شادی کرکے جنت میں نبی کریمؐ کی رفاقت کے بھی حقدار بن گئے، اْن کی ایک بیٹی اور داماد وسیم الغنی بھی ماشاء اللہ حافظِ قرآن ہیں۔ اپنے بڑے بھائی پروفیسر عبدالحفیظ کی اچانک وفات کے بعد بیوہ بھابی اور یتیم بچوں کی سرپرستی کا بھی خوب حق ادا کیا۔
عزیر صاحب ماشاء اللہ اپنے رب سے تعلق کی بڑھوتری اور مضبوطی کے لیے عبادات میں مشغول رہتے، جب موقع اور وسائل میسر آئے عمرے پر تشریف لے گئے، میں نے 2015 میں نے اْن کے ساتھ مکہ مکرمہ میں دن گزارے، وہ رمضان المبارک میں تقریباً ہرسال باقاعدگی سے اعتکاف کرتے، اس دوران میں قرآن مجید کی تلاوت اور آیات میں تدبر اور غور وخوض میں مصروف رہتے کئی کتابوں اور سیرت ِ طیبہ کے انقلاب ِ امامت کے چیپٹر کا خوب مطالعہ کرتے، پھر پورا سال اس مطالعے کی جھلک، اْن کے خطابات، دروس اور ہدایات میں نظر آتی رہتی، اپنی وفات سے چند روز پہلے بھی اْنہوں نے اعتکاف کیا، عیدالفطر کے بعد جون کی پہلی یا دو تاریخ کو فون پر ایک گھنٹے تک میری بات ہوئی، فون بند کرنے سے پہلے فرمایا کہ شیخ صاحب اس مرتبہ دورانِ اعتکاف، میں آپ کے لیے دْعاؤں کے ساتھ ساتھ بہت کچھ سوچتا رہا اور پھر مجھے انہوں نے جماعت کے کام کے حوالے سے مخلصانہ مشورہ دیا اس مشورے سے اْن کی دور بینی، اصابت ِ رائے اور معاملہ فہمی کا ایک اور روشن پہلو میرے سامنے آیا۔
اْن کی دنیا سے رخصتی کے حوالے سے یہ بات عرض کررہا ہوں کہ منصورہ میں مرکزی مجلسِ شوریٰ کے اجلاس کے دوران مسجد میں نماز کے بعد محترم سید منورحسن مسجد کے باہر کار میں بیٹھتے ہوئے ساتھیوں سے ملاقات اور مصافحہ کررہے تھے، عزیر صاحب اور میں تھوڑے سے فاصلے پر کسی کے منتظر تھے، اچانک عزیر صاحب تیزی سے آگے بڑھے اور سید صاحب سے معانقہ کیا اور مختصر ملاقات کرکے واپس آئے اور فرمایا کہ پتا نہیں کیوں ’’مجھے لگتا ہے یہ سید صاحب سے آخری ملاقات ہے‘‘ پھر ایسا ہوا کہ منور حسن اپنی علالت کے باعث لاہور تشریف نہ لاسکے اور عزیر صاحب کا یہ خدشہ صحیح ثابت ہوا۔
جون کے پہلے عشرے میں عْزیر صاحب ’’کورونا‘‘ کا شکار ہوگئے، اْنہیں خانیوال سے ملتان نشتر اسپتال میں منتقل کردیا گیا، میں اْن کے صاحبزادوں اور داماد سے رابطے میں رہا، اْن دنوں اکثر مریضوں کو آخری اسٹیج پر، جو انجیکشن لگایا جارہا تھا وہ دستیاب نہیں تھا، میں نے راشد نسیم سے رابطہ کیا تاکہ یہ انجیکشن مل جائے لیکن کوشش کے باوجود نہ مل سکا، اِدھر عْزیر صاحب کا سیچوریشن لیول گر رہا تھا، ڈاکٹرز کی تمام تر جدوجہد اور محبین کی دعاؤں کے باوجود عزیر صاحب موت کی وادی کی طرف بڑھتے رہے۔
نہ دوا ہوئی کوئی کارگر، نہ کیا دْعا نے کوئی اثر
میرا چھلنی چھلنی ہوا جگر مجھے خوں کے آنسو رْلا گئے
18 جون 2020 یعنی محترم سید منورحسن کی وفات سے ٹھیک آٹھ دن قبل عْزیر صاحب کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی، وہ اْس سفر پر روانہ ہوگئے جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ اِنّا لِلّہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعْون، دن گیارہ بجے میرے بیٹے حذیفہ عثمان نے سوشل میڈیا پر یہ روح فرسا خبر دیکھتے ہی اطلاع دی کہ ’’چودھری عزیرلطیف اب اس دنیا میں نہیں رہے‘‘۔ اس اندوہناک خبر نے دِل مضطرب کو ہِلا کر رکھ دیا۔ جاوید اقبال بلوچ میاں محمد نعیم ثاقب، برادران شیخ حیدر فاروق اور سعد فاروق کے ساتھ خانیوال پہنچ کر غزالی اسکول کی عمارت میں داخل ہوا لیکن آج ہمارا استقبال کرنے کے لیے وہ راہنماء موجود نہیں تھے جو گزشتہ 25 سال سے ہمیشہ مسکراتے چہرے کے ساتھ خوش آمدید کہتے تھے، بعد نمازِ مغرب اْن کا جسدِ خاکی جنازہ گاہ میں لایا گیا، کورونا ایس او پیز کے باوجود ہزاروں افراد نے جنازے میں شرکت کی، اس موقع پر قیم جماعت اسلامی پاکستان امیر العظیم نے مختصر خطاب فرمایا، حافظ معوذ عْزیر نے اپنے پیارے ابو جان کی نمازِ جنازہ رقت آمیز دعاؤں کے ساتھ پڑھائی، شہر کے وسط میں واقع قبرستان میں اْن کی تدفین ہوئی، جب اْن کا جسدِ خاکی لحد میں اْتارا جارہا تھا تو میں سوچ رہا تھا کہ
یہ کیا دستِ قضا کو کام سونپا ہے مَشیّت نے
چمن سے پھول چْننا اور ویرانے میں رکھ دینا
اللہ کے اس مْقرب بندے نے اپنی جوانی اور ادھیڑ عمری، پھر بڑھاپا خارزارِ دنیا میں کس قدر احتیاط اور راہِ تقویٰ پر چلتے ہوئے گزار دیا، بہتے آنسوؤں اور دکْھی دل کے ساتھ سب عزیز واقارب نے عالمِ بیچارگی میں عزیر صاحب کو الوداع کہا اور قبر پر دْعا کرنے کے بعد بوجھل قدموں سے واپس لوٹے، اگلے دن جمعتہ المبارک کو اْن کے اسکول اور گھر کے لان میں قرآن خوانی اور درس قرآن کے بعد دعائے مغفرت کی گئی، اس پروگرام میں، میں نے اْن کے اہل خانہ کی خواہش پر اظہارِ خیال کیا اللہ سے دْعا ہے کہ وہ ہمارے محسن، ہمدرد، ہم نشین اور راہنماء چودھری عزیرلطیف صاحب کو خْلدِ بریں میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، اْن کی قبر کو تاحدِ نگاہ وسعتیں عطاء فرمائے، اْن کی خیرات وحسنات اور عبادات کو شرفِ قبولیت بخشے اور اْن کے مشن کی تکمیل کے لیے ہر راہروِ تحریک کو توفیق و استقامت عطا فرمائے، اْن کے اہل خانہ اور تمام دوست واحباب اور محبین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔