ایوان معزز اراکین سے محروم

298

۔15 جون کو قومی اسمبلی میں جو کچھ ہوا پاکستان کی تاریخ کا کوئی پہلا واقع نہیں، یہ اسمبلی ماضی میں بھی ایسے شرم ناک واقعات کا سامنا کر چکی ہے جو ملک و قوم کی جگ ہنسائی کا سبب بن چکی ہے۔ شرم کا مقام تو یہ تھا کہ اس سانحہ پر وہ لوگ تہذیب کا بھاشن دے رہے تھے جو ماضی میں ملک کی عدالتوں پر حملہ آور ہوئے، قومی اداروں کا بیڑا غرق کیا، وہ لوگ آج تہذیب کا سبق پڑھا رہے ہیں آج ان لوگوں کو غریب کی مہنگائی کا ایسا درد ہے جس نے ان کی راتوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔
دو دن مسلسل اس ملک کا معزز ایوان حکومت اور اپوزیشن کی جہالت نالائقی کا منظر پیش کرتا رہا مگر کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے جس سے ان اراکین اسمبلی کا شاید کوئی تعلق واسطہ نظر نہیں آتا ملک کا سابق وزیر اعظم اسپیکر کو جوتا مارنے کی دھمکی دیتا ہے کوئی ایک گالی دے گا تو میں اُس کے خاندان کو گالی دوںگا، کوئی اپوزیشن لیڈر کو بوتل مارے گا تو میں ملک کے موجودہ وزیر اعظم کو ماروںگا۔ اس ایوان میں موجود خواتین کا تقدس پامال کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ یہ وہ عمارت ہے جس میں قرآنی آیات نقش ہیں ان آیات کے سائے میں دونوں جانب سے بھر پور گالم گلوچ کے مقابلے کیے گئے ایک دوسرے کی ماں بہن کے تقدس کو بھر پور انداز سے پامال کیا گیا افسوس تو اس بات کا تھا کہ حکومتی جماعت کا کوئی سینئر لیڈر تو موجود نہیں تھا مگر اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کے لیڈر اس ایوان میں موجود تھے جو اس شرم ناک سانحے کو روکنے کے بجائے اکساتے نظر آئے دونوں حضرات نے یہ ثابت کیا کہ وہ حکومت کو گندا کرنے میں کسی بھی حد تک جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں دوسری جانب موجود ہ حکومت نے بھی یہ ثابت کیا کہ وہ کسی سے کم نہیں۔ خان صاحب جو صبح شام اچھائی کی باتیں کرتے ہیں مگر ان کی جانب سے بھی اپنی جماعت کے اُن اراکین اسمبلی کے خلاف کوئی کارروائی دیکھنے کو نہیں ملی جنہوں نے اس معزز عمارت کے تقدس کو پامال کیا۔
ہمارے نظر میں یہ عمارت یقینا معزز ہوسکتی ہے مگر اس میں پانچ سال کے لیے بسنے والے اراکین معزز کہلانے کے حق سے محروم ہیں۔ ماضی گواہ ہے کہ اس معزز عمارت میں کھڑے ہوکر ملک کے وزیر اعظم قوم سے جھوٹ بولتے رہے ہیں، لیڈر اپوزیشن جو حکومت کو عوامی مسائل کے حل کا آئینہ دکھانے کا ذمے دار ہوتا ہے مگر بد قسمتی سے وہ حکومت سے اپنے ذاتی مفادات کا تقاضا کرتا دکھائی دیا ہے، اس معزز عمارت کے اراکین جو اپنے حلقوں کے نمائندے بن کر اُن کے مسائل کے حل کی قسمیں اُٹھاتے ہیں حق سچ کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے وزیر مشیر بنے کی دوڈ میں لوٹے بن کر اس معزز عمارت میں اپنے ضمیر کا سودا کرتے ہیں۔ ماضی میں بنے والی حکومتوں سے لے کر موجودہ حکومت تک ضمیر فروشوں کی بے ساکھی کے ذریعے اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوا جاتا رہا ہے، 73 برسوں سے یہ قوم اپنے ووٹ کی تذلیل دیکھ رہی ہے مگر افسوس سیاست جمہوریت کے سوداگروں کو شرم ہے کہ آتی نہیں۔
جب تک ملک کی قومی اسمبلی کی عمارت ضمیر فروشوں کی آماج گاہ بنی رہے گی اُس وقت تک نہ جاتی امر نہ ہی بلاول ہائوس اور نہ ہی بنی گلہ سمیت کسی بھی کرپشن کرنے والے ملک بیرون ملک ناجائز اثاثے بنانے والے کو کوئی خطرہ ہوسکتا ہے کیوں کہ جب انسان کا ضمیر مر جاتا ہے تو انسانیت مر جاتی ہے یہ قوم 73 برسوں سے اپنے مسائل کا کشکول لیے ضمیر فروشوں کے گرد گھوم رہی ہے بد قسمتی سے ہر ایک نے اس قوم کی پیٹھ میں خنجر گھونپا ہے۔ ٹھنڈی عمارتوں میں مکمل مراعات کے ساتھ مزے کرنے والے عوامی نمائندے کیسے غریب کی تپتی جھونپڑی کا درد محسوس کر سکتے ہیں، برسوں سے ہم اس ایوان میں کرپشن کے الزامات کی زد میں بیٹھے اراکین کو معزز اراکین کہتے آئے ہیں مگر حقیقت تو یہ ہے کہ اس ایوان میں چور ڈاکوں نامعلوم افراد ملک بیرون ملک ناجائز اثاثے بنانے والے موجود ہیں تو پھر میں اس ایوان میں بیٹھے افراد کو کیسے معزز اراکین کہہ سکتے ہیں۔ یہ عمارت مقدس و معزز ہوسکتی ہے مگر اس میں موجود اراکین ہماری نظر میں اُس وقت معزز اراکین ہوں گے جب یہ عوامی نمائندے اپنے لیڈر کی نہیں بلکہ حق وسچ کی آواز کے ساتھ کھڑے ہوں گے پارلیمنٹ ہائوس، عدالت عظمیٰ، جی ایج کیو سمیت تمام قومی سرکاری عمارتیں ہمارے لیے معزز ہیں مگر ان میں بیٹھے افراد اُس وقت معزز ہوں گے جب وہ حق و سچ کے ساتھ کھڑے نظر آئیں گے۔