تمام لیزیں اور این او سی مشتبہ ہو گئیں

212

جس روز سے عدالت عظمیٰ نے کراچی میں تجاوزات کو بلڈوز کرنے کا حکم جاری کیا ہے پورے شہر میں بے چینی ہے ۔ بہت سی پیچیدگیاں پیدا ہو گئی ہیں ۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے سرکار کے ذمے اپنے شہریوں کو چھت دینے کاکام کرنے والا نجی شعبہ ایک مرتبہ پھر سامنے آیا ہے ۔ ایسو سی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیویلپرز (آباد )تاجر برادری اور سول سو سائٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کراچی میں پچاس پچاس برس سے ہر طرح کی قانونی دستاویزات رکھتے ہوئے قیام کرنے والوں کو ان کا موقف سنے بغیر بے دخل نہ کریں ۔ اس حوالے سے آباد کا موقف ہے کہ ہمیں عمارتیں تعمیر کرنے کے لیے17 این او سی لینی پڑتی ہیں اور تمام این او سیز لینے کے بعد عمارتیں تعمیر کی جاتی ہیں ۔ اگر اس طر ح قانونی دستاویزات جعلی قرار دی گئیں تو کون سرمایہ کاری کرے گا ۔ لوگ کون سی لیز اور قانون پر اعتبار کریں گے ۔ اس ایک فیصلے نے پورے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ چھوٹا سا فلیٹ ہو ، زمین کا ٹکڑا یا کوئی بڑا پروجیکٹ کون سرمایہ لگائے گا ۔ ہر شخص شبہات کا شکاررہے گا کہ آج کوئی فلیٹ خریدا تو کل میرے بچوں کا کیا ہو گا ۔ سارے این او سیز لینے کے باوجود کوئی عدالت اچانک سب کالعدم قرار دے دے گی ۔ اور یوں بھی نہیں کہ وقت دیا جائے اور معاوضہ دیا جائے ۔ بلکہ دو دن میں بلڈوز کر دیا جائے ۔ اس حوالے سے آباد اور سول سو سائٹی اور تاجروں کا آگے آنا نہایت اہم ہے ۔ سرکاری افسران اگر غلط این او سی دے رہے ہیں تو گرفت اور سزا ان کو ملنی چاہیے نہ کہ عوام کو ۔ پھر سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ریاست اپنی ذمے داری کب پوری کرے گی۔ روٹی ،کپڑا ، مکان ، بنیادی حقوق ہیں عوام کو یہ کون دے گا ۔