بہت ہوچکا نااہل حکومت کو گھر جانا ہوگا،فضل الرحمٰن

113

سکھر‘پشاور(آن لائن+صباح نیوز)جمعیت علمائے اسلام اورپی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ موجودہ نااہل،سلیکٹیڈ حکومت کے پاس نہ تو ملک کو دینے کے لیے کچھ ہے اور نہ ہی پاکستان کی غریب عوام کو دینے کے لیے کچھ بچا ہے ، کشکول توڑنے والے آج خود کشکول ہاتھوں میں تھامے ہوئے ہیں ، وفاقی حکومت کے ناقص بجٹ میں پاکستان کی غریب اور مظلوم عوام کے لیے کسی قسم کا ریلیف نہیں ہے ، بجلی ، گیس، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں جوں کی توں ہیں ،ملک میں اندھا دھند مہنگائی کا طوفان برپا کیا جا رہا ہے ، نااہل حکمرانوں کو ملک کے غریب عوام کی کوئی فکر نہیں ،امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہو تا جا رہا ہے ،نیازی حکومت اگر سمجھتی ہے کہ وہ پاکستان کے عوام کو اب مزید بے وقوف بنا کر اقتدار کا وقت بڑھا سکتی ہے تو وہ اس کی بھول ہے، اب بہت ہو چکا نااہل حکومت کو گھر جانا پڑے گا اور اگر باعزت طریقہ کار سے خود نہ گئی تو عوام خود بخود انہیں گھر بھیج دے گی اور وہ وقت دور نہیں ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوںنے اسلام آباد میں جے یو آئی ضلع سکھر کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد صالح انڈھڑ کی قیادت میں ملنے والے جے یو آئی رہنمائوںکے وفد سے گفتگو کے دوران کیا۔علاوہ ازیں مولانا فضل الرحمن نے پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پی ڈی ایم اپنے موقف پر قائم ہے حکومت کے خلاف عوامی قوت کے ساتھ تحریک کا عمل جاری ہے،29جولائی کو کراچی میں بڑا اجتماع ہوگا جبکہ سوات میں4جولائی کو تاریخ کا بڑا اجتماع ہوگا، ہم ثابت کریں گے کہ حکومت کو عوام پر کیسے مسلط کیا گیا،ایسے لوگ پشتون لوگوں کے نمائندے نہیں بن سکتے،29جولائی کو کراچی میں بڑا جلسہ ہوگا اور ایک بار پھر وہاں عوامی صفحوں کو منظم کیا جائے گا۔مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ بجٹ اجلاس میں پارلیمنٹ کی توہین اور تضحیک کی گئی، ایک بھونڈے انداز سے بجٹ پیش کیا گیااور جھوٹ کو چھپانے کے لیے پارلیمنٹ کے اندر اپوزیشن پر جوتے پھینکے گئے، اس قسم کے کردار اور گرے ہوئے رویے کے بعد کیسے پارلیمنٹ کی بالا دستی کی بات کی جائے گی۔انہوںنے کہا کہ بجٹ جھوٹ کا پلندہ تھا اور حکومت نے ہلڑ بازی کا سہارا لیا، ایسی تلخی میں پارلیمنٹ نہیں چل سکتی، قومی اسمبلی سے معاملہ بلوچستان تک پہنچا، بلوچستان کی محرومیوں کو نظرانداز کیا گیا اور اپوزیشن کے حقوق سلب کیے گئے۔ آج نئے نظام کا تجربہ ناکام نظر آریا ہے، دہشت گردی دوبارہ سر اٹھا رہی ہے، شبہ ہے اس قسم کے حالات ریاستی اداروں کی ناک کے نیچے پیدا ہوتے ہیں۔