افغانستان سے امریکی انخلایا’’گریٹ گیم‘‘ کاآغاز

659

افغانستان سے انخلاکے بعد اگر امریکی فوج کی کوئی حکمتِ عملی ہے توبس یہ کہ کسی نہ کسی طور آپس کی خانہ جنگی جاری رہے تاکہ خطرات کی سطح اس حد تک گرجائے کہ ملک کی سیکورٹی کاانتظام بدسے بدترہوجائے اورکوئی گروپ اس پرقابونہ پاسکے۔ افغانستان کے طول وعرض میں20سال کی لڑائی کے بعداب بھی کوئی بھی کسی بھی سطح پریہ دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں نہیں کہ پورے ملک پراس کاقبضہ ہے اوران دودہائیوں میں امریکااوراس کے اتحادی خودافغانستان پرکبھی مکمل قبضے کادعویٰ نہیں کرسکے تواب بھلاافغان فوج ان کے رخصت ہونے کے بعدکیسے ملک میں سلامتی برقراررکھ سکے گی۔ افغان فوج کبھی جیتنے کی پوزیشن میں توخیرآہی نہیں سکی،وہ توبس نیٹواورامریکی افواج کے سہارے افغان فوج کی وری پہنے اپنی شناخت کے لیے موجودہیں اورپینٹاگون جوپچھلے 20سال وائٹ ہاوس کویقین دلاتارہاکہ وہ ایک نہ ایک دن امریکی واتحادی افواج کی مدد سے کسی بڑی فتح کو یقینی بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے،اس خواب کی تعبیربھی بڑی خوفناک نکلی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق انخلا کرتے ہوئے اپنے تمام بیسز افغان فوج کے حوالے کررہے ہیں، جس کے بعدخانہ جنگی کامیدان گرم ہے۔ اطراف سے فتح کے ڈونگرے توبرسائے جارہے ہیں تاہم سیاست،نظام حکومت اورمعاشیات کے حوالے سے سویلین سطح پرابھی تک کسی بڑی کامیابی کوممکن بنانے کادعویٰ کوئی نہیں کررہا۔ یہ بات ضرورکہی جارہی ہے کہ ہرآنے والادن زمینی حقائق کی تصدیق کرتے ہوئے طالبان کومکمل فتح سے قریب کررہاہے ۔
امریکی محکمہ دفاع کے مطابق افغان جنگ میں کھربوں ڈالرلاگت آئی ہے۔ تصدیق شدہ سرکاری اعداد وشمارکے مطابق3502فوجی مارے گئے جن میں2312 امریکی فوجی تھے28ہزارسے زائدزخمی ہوئے ہیں جن میں69فیصدزندگی بھر کے لیے معذور ہوچکے ہیں اورایک رپورٹ کے مطابق ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ ان زخمیوں کی ادویات اور علاج معالجہ کے لیے صرف ہورہے ہیں۔ امریکی عوام یقیناً یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ 20 سال کی جنگ کے نقصانات کے ذمے داروں کواحتساب کے کٹہرے میں ضرور کھڑا کیا جائے۔ اس حقیقت سے بھی کوئی انکارنہیں کرسکتاکہ امریکی انخلا کے وقت 70 فیصد سے زائدافغان سرزمین پرطالبان کاکنٹرول ہے۔ دوسری طرف پینٹاگون ابھی تک یہ دعویٰ بھی نہیں کرسکتاکہ افغان فوج اپنے پیروں پرکھڑی ہوچکی ہے،اب انہیں فنڈنگ یا امریکا سے فضائی امداددرکارنہیں،امریکا نے افغان فوج کی اعلیٰ تربیت کے ساتھ اسے فضائی لڑائی میں بہترین انداز سے معاونت فراہم کرکے معاملات کو بہتر بنانے کی بھرپور کوشش کی لیکن اس کے باوجودامریکی فوج کے لیے جانی نقصان کا گراف مسلسل نیچے آیا۔
انتہائی پریشان کن امریہ ہے کہ افغان فوج اب بھی یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں کہ وہ ملک کوبہترین اندازسے کنٹرول کرسکتی ہے یا یہ کہ وہ طالبان اور دیگر عناصر کوقابومیں رکھنے کی پوزیشن میں آچکی ہے۔ پاکستان کے حوالے سے امریکانے ہمیشہ خاصا سخت مؤقف اختیاررکھالیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دوحہ امن مذاکرات پاکستان کی کوششوں ہی سے ممکن ہوسکا۔ یہ بات بھی بہت واضح ہوچکی ہے کہ روس اور ایران اب طالبان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس میں شک نہیں اورسیاسی ودفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق بہت سے شواہدموجودہیں کہ امریکانے بالآخر اپنی مکمل شکست سے بچنے کے لیے داعش کوعراق وشام سے افغانستان میں منتقل کیاتاکہ افغانستان کونہ ختم ہونے والی خانہ جنگی میں مبتلاکرکے امریکی اورنیٹوافواج کی موجودگی کاجوازقائم رکھاجاسکے لیکن پینٹاگون کواپنی اس سازش میں بھی بری طرح ناکامی کاسامناکرناپڑااوربڑے افغان شہروں میں داعش کے حملوں سے افغان فوج پرعوام کا اعتماد متزلزل اورطالبان پراعتمادمضبوط ہواہے۔
افغانستان میں جو کچھ ہواوہ بہت حد تک ویت نام جیسا تھا۔ تب امریکانے برسوں کی بات چیت کے بعدیاساتھ شمالی ویت نام کو بھرپورقوت کے ساتھ نشانہ بنایاتھااوردوسری طرف جنوبی ویت نام کواپنی مدد کے لیے تیار کیا تھا۔ پینٹاگون اس پالیسی کوامن کوجیتنے اور جنگ کوہارنے کی حکمت عملی قراردے رہاتھا۔شمالی ویت نام کی مزاحمتی فوج کواس بات کایقین تھا کہ وہ جنگ جاری رکھنے کی پوزیشن میں ہے۔ مزیدیہ کہ وہ اپنی مرضی کے نتائج بھی حاصل کرسکتے تھے۔ دوسری طرف چند امریکی حکام نے آنے والے دورکے خطرات کوبھانپ لیا تھا۔ انہیں اندازہ تھاکہ امریکادرحقیقت ہارچکاہے مگر آبروبچانے کی خاطرامن کونافذکرنے کی تیاری کرتارہا۔ ویت نام کی جنگ امریکانے ایسی شرائط کے تحت ختم کی تھی جو دراصل شکست کی شرائط تھیں۔
چنداورمعاملات بھی ہیں جن میں موجودہ افغانستان اورتب کے ویت نام میں کئی اقدارِمشترک پائی جاتی ہیں۔ امریکانے شمالی ویت نام کو باہرسے ملنے والی مختلف النوع امدادکے بارے میں غلط اندازے قائم کیے تھے اورسب سے بڑھ کریہ کہ اس نے جنوبی ویت نام کے بارے میں یہ خوش فہمی پال لی تھی کہ وہ گورننس اوراقتصادی کارکردگی کے معاملے میں بہت آگے ہے،غیرمعمولی دم خم رکھتاہے جبکہ ایسانہیں تھا۔ امریکی قیادت نے اس حقیقت کویکسرنظراندازکردیاکہ ویت نامی حکومت بدعنوانی اورنااہلی پرقابوپانے میں ناکام ہوچکی تھی اورنظامِ حکومت کے حوالے سے اس کی کارکردگی بہت خراب تھی۔سویلین اورفوجی دونوں ہی معاملات میں وہ نااہل تھی اورمعاشی کارکردگی کے حوالے سے قابل رحم حالت میں تھی۔ اس کے نتیجے میں وہ نام نہادجمہوریت بھی کچھ نہ کرسکی جوامریکا نے متعارف کرائی تھی۔
اس وقت افغانستان کے حکومتی سیٹ اپ میں بہت کم افسران انتہائی ایمانداراورمحب وطن ہیں، جیسا کہ ویت نام کے کیس میں تھامگر مسئلہ یہ ہے کہ مجموعی سیاسی سیٹ اپ ویساہی بدعنوان اورنااہل ہے جیساکہ ویت نام میں تھا۔ سیاسی اورمعاشی کارکردگی کاگراف گرا ہوا ہے۔ پوری معیشت آبادی کے ایک چھوٹے سے طبقے کواپنے ثمرات سے مستفیدہونے کا موقع دے رہی ہے۔ معاشرے میں تقسیم غیرمعمولی ہے۔ مسائل ہیں کہ بڑھتے جارہے ہیں اورموجودہ افغان حکومت نے ان کے حل کی کوئی سبیل نہیں نکالی۔ ویت نام کی طرح افغان سویلین اورفوجی دونوں ہی سیٹ اپ ناکام ہیں،مگرسویلین سائڈکی ناکامی زیادہ نمایاں ہے۔ سیاسی اعتبارسے افغانستان زیادہ منقسم اورکمزورترہے جس کے شدید منفی اثرات ملک کی معاشی کارکردگی پربھی مرتب ہورہے ہیں۔
افغانستان کی قومی فوج اب تک اس قابل نہیں ہوسکی کہ ملک کانظم ونسق بہتراندازسے سنبھال سکے، تاہم حقیقت یہ ہے کہ امریکااور مغرب نے سیاسی پہلوکوجان بوجھ کربہت حد تک نظر انداز کیے رکھا۔ افغان فوج کاکمزورہوناایک حقیقت ہے مگرسیاسی پہلو زیادہ بڑی حقیقت کادرجہ رکھتا ہے۔ ملک میں مجموعی اعتبارسے تعمیروترقی مایوسی کاشکاررہی، یہ محض عسکری معاملہ نہیں۔ مجموعی طور پرسیاسی سیٹ اپ ہی نااہل اوربدعنوان ہے۔ ایسے میں ملک کسی بھی طورآگے نہیں بڑھ سکا۔ منتخب حکومت اپنی ناکامی کاساراالزام سیکورٹی کی صورت حال کے سر ڈالنے کے لیے بے تاب رہتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ سیاسی سیٹ اپ اپنی نااہلی چھپانے کے لیے افغان حکومت نے ہمیشہ طالبان اورپاکستان کوموردِ الزام ٹھیرا کراپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کی پالیسی جاری رکھی اوراس طرح معاملات کومزیدخرابی کی طرف دھکیلتے رہے۔
جنوبی ویت نام میں بھی نااہلی تھی،کرپشن بھی تھی مگرمعاشرے میں غیرمعمولی تقسیم نہ تھی۔ بدھسٹ اورکیتھولک گروہوں کے درمیان تقسیم کی نوعیت وہ نہ تھی جوافغانستان میں ہے۔ یہاں فرقہ وارانہ یامسلکی بنیادپراختلافات بہت زیادہ ہیں۔ نسلی اورلسانی تقسیم بھی موجود ہے۔عالمی بینک اورعالمی مالیاتی فنڈجیسے اداروں نے افغانستان میں سویلین حکومت کی نااہلی کی طرف بارباراشارہ کیا ہے۔ملک میں اب بھی نارکو اکانومی کااثربہت زیادہ ہے،یعنی پوست کی کاشت پر اطمینان بخش حد تک قابونہیں پایاجاسکاہے۔ سیاسی نا اہلی سے ایک طرف توملک میں سلامتی کامعاملہ داؤپرلگاہواہے اوردوسری طرف ترقی کی راہ بھی مسدودترہوتی جارہی ہے۔ ملک بھر میں غیرمعمولی بے روزگاری نے مسائل کومزیدسنگین کردیاہے ۔حقیقت یہ ہے کہ مکمل ناکامی سے قبل ویت نامی معاشرہ اس قدر منقسم نہ تھاجس قدرافغان معاشرہ ہے۔
اس حقیقت سے انکارممکن نہیں کہ امریکاکواب افغانستان سے نکلناہے اوروہ براہ راست زمینی جنگ سے مکمل طورپرجان چھڑانا چاہتاہے،مگریہ سب کچھ ایساآسان نہیں جیسادکھائی دیتاہے۔جس جنگ کوچھوڑناہے اسے اورکسی شکل میں جاری بھی رکھے گا۔ یہی سبب ہے کہ امریکاطالبان سے مذاکرات کے ذریعے ایک ایسی فتح چاہتاہے جس سے وہ جان بھی چھڑاناچاہتاہے۔نیپال اورکمبوڈیا میں بھی خانہ جنگی ہوئی مگراِن دونوں ممالک کامعاملہ افغانستان اورویت نام سے بہت مختلف رہا۔نیپال اورکمبوڈیامیں جب جنگجووں نے دیکھا کہ وہ میدانِ جنگ میں سب کچھ نہیں پاسکتے توانہوں نے بات چیت کی راہ اپنائی اورمذاکرات کی میزسے ایوانِ اقتدارتک پہنچے۔ کمبوڈیااورنیپال دونوں کے معاملات میں یہ ثابت ہواہے کہ کبھی کبھی امن مذاکرات جنگ کوطول دینے کاباعث بنتے ہیں اور فریقین ایک دوسرے کودھوکادینے کے لیے مذاکرات کی میزتک آتے ہیں۔
خطے کے معاملات پرگہری نظررکھنے والے سمجھتے ہیں کہ اگرامریکاچاہتاہے کہ افغانستان سے مکمل جان چھوٹے تولازم ہے کہ امریکانے طالبان کی حکومت کوگراکرافغانستان پرقبضہ کیاتھااوراب جنگ بندی کے لیے بھی طالبان ہی سے امن معاہدہ طے پایا ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ امریکاانخلا کے وقت بیسزخالی کرتے ہوئے انہیں افغان طالبان کے حوالے کیا جائے۔ اگراس امید پرملک میں خانہ جنگی کروائی گئی کہ طالبان کبھی توتھک ہارکرکمزورہوکرہارمانیں گے تویہ خودفریبی اوردیوانے کے خواب کے سواکچھ نہیں۔
ان دنوں موجودہ کٹھ پتلی حکومت اورکرزئی گروہ امریکاکویہ فریب دینے کی کوششوں میں مگن ہے کہ افغان جنگ جیتنے کاایک اور طریقہ یہ بھی ہوسکتاہے کہ افغان حکومت کوزیادہ فنڈز دے کرمضبوط بنایاجائے۔ ملک کاکنٹرول مکمل طورپرسنبھالنے کی پوزیشن میں لایاجائے لیکن امریکاجانتاہے کہ وہ اپنے اتحادیوں سمیت کامیاب نہیں ہوسکا۔ اس لیے موجودہ افغان کٹھ پتلی اوران کے ہمنوائوں کی تجویزپرعمل کرناناممکن دکھائی دیتاہے۔ جنگ میں بھی کسی نہ کسی سطح پرتوایماندارہوناہی پڑتا ہے۔ 5سال قبل واشنگٹن میں امریکا کے تمام معروف دفاعی اورسیاسی تجزیہ نگاروں نے مشہورامریکی تھنک ٹینک ’’سینٹرفاراسٹریٹجک اینڈانٹرنیشنل اسٹڈیز‘‘کے اجلاس میں انتھونی کارڈزمین جوواشنگٹن ڈی سی میں قائم تھنک ٹینک سینٹر فاراسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیزمیں اسٹریٹجی کے حوالے سے آرلی اے برک چیئرکے سربراہ بھی ہیں، انہوں نے افغانستان کے حوالے سے امریکی محکمہ خارجہ اورمحکمہ دفاع کے لیے مشیرکی حیثیت سے کام کیاہے،امریکاکومشورہ دیاتھاکہ’’امریکاکویہ بات تسلیم کرلینی چاہیے کہ دنیابھرمیں یہ تاثرعام ہے کہ افغانستان میں امریکی افواج کبھی حقیقی فتح کادعویٰ یا اعلان نہیں کرسکتیں۔ایسے میں ایک اچھا اقدام یہی ہوسکتاہے کہ فتح کااعلان کرنے کے بجائے امن کااعلان کرکے اپنی راہ لی جائے۔ایشیاکے نئے گریٹ گیم میں جیتنے کاایک اچھا طریقہ یہ بھی ہے کہ کھیلناترک کردیاجائے۔ اس کے نتیجے میں خرابیاں پاکستان، ایران، روس، چین اوردیگرممالک کے حصے میں آئیں گی اورجوکچھ امریکانے سہاہے وہی کچھ اِن ممالک کوبھی سہناپڑے گا۔ ‘‘لیکن محسوس یہ ہورہاہے کہ بعض نادیدہ قوتوں نے پینٹاگون کی آنکھوں پرایسی پٹی باندھ رکھی ہے جس نے امریکاکے مستقبل کی بربادی کودیکھنے کی قوت کوسلب کررکھاہے۔
اب ضرورت اس امرکی ہے کہ پاکستان اورافغان طالبان مل کرامریکی انخلا کے موقع پرپینٹاگون اوروائٹ ہائوس کے اس پروپیگنڈے پرقطعاًیقین نہ کریں جس میں وہ باربار پاکستان میں امریکی ائیربیسزلینے کی یقین دہانی کروارہے ہیں جبکہ پاکستان نے ہرعالمی فورمز پراس کی بھرپورتردیدکی ہے اوراس کے ساتھ طالبان نے دوحہ میں امن معاہدے میں اقوام عالم کوبھرپوریقین دلایاہے کہ آئندہ افغانستان کی سرزمین کسی کے خلاف استعمال کی اجازت نہیں ہوگی۔ طالبان اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ بھارت نے امریکاکی مدداور موجودگی کافائدہ اٹھاتے ہوئے دہشت گردی کامنظم نیٹ ورک تیارکرکے پاکستان میں درجنوں حملے کروائے اوراب بھی ان گروپوں کی اعانت کررہاہے جس کے مضبوط شواہد اقوام متحدہ کے علاوہ دیگرمغربی ممالک کوبھی فراہم کیے گئے۔شنیدیہ بھی ہے کہ ’’را‘‘کے چیف نے دوحہ میں طالبان کے دفترمیں دو مرتبہ ملاقات کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور طالبان سے حسن ظن اورخوش گمانی رکھتے ہوئے پوری امیدہے کہ طالبان افغان سرزمین کودنیا بھر کے لیے امن کاایک بہترین نمونہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اوراقوام عالم سے ایفائے عہدکرتے ہوئے کسی بھی گروہ کواپنے ہاں رہنے کی اجازت نہیں دیں گے۔