بی جے پی کا مسلم تعصب اور بھارت عرب تعلقات

360

نریندرمودی نے 22 دسمبر کو علی گڑھ یونیورسٹی کی صد سالہ تقریب سے خطاب کیا۔ یہ دارالحکومت دہلی میں جنوب مشرق کی جانب چند گھنٹوں کی مسافت پرواقع یہ یونیورسٹی مرکز کے زیر انتظام ہے۔ دوسری اہم تقریبات کی طرح یہ تقریب بھی آن لائن ہی منعقد کی گئی لیکن مودی کی اس تقریر کوعوام نے بہت غور سے سنا اور دیکھا تھا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی جوکہ اس وقت حکومت میں ہے، اس کی بھارت میں مقیم 20 کروڑ سے زائد مسلمانوں کے ساتھ نفرت اور دشمنی کی ایک تاریخ ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی ہمیشہ سے کھلے عام فرقہ واریت اور مسلم دشمنی کی آگ بھڑکاتی ہے۔ مودی نے اپنی تقریر میں مسلمانوں کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ رنگ و نسل اور فرقہ واریت سے بالاتر ہوکر وہ تمام بھارتیوں کے وزیراعظم ہیں۔
اپنی تقریر میں مودی نے فریب دینے کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ ان کی حکومت مذاہب کے درمیان غیر امتیازی سلوک نہ کرنے کا عہد کرچکی ہے۔ تقریر میں مودی نے اعداد و شمار کے ذریعے یہ ظاہر کیا کہ مسلمان لڑکیوں کی تعلیم کے حصول میں بہتری آئی ہے لیکن اس کے ساتھ یہ مطالبہ بھی کیا کہ مسلمان طالبعلم بھارت کا ’’نرم رویہ‘‘ دنیا کو دکھائیں تاکہ بین الاقوامی سطح پر بھارت کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ مودی کی یہ درخواست بھارت کے جارحانہ سفارتی رویے کے اثر کو زائل کرنے کے لیے کی گئی تھی، تاکہ مسلم ممالک کے ساتھ بھارت کے اچھے سفارتی تعلقات قائم ہوسکیں یا کم سے کم مسلم دنیا کا بھارت کے معاملے میں یہ تاثر ختم کیا جاسکے کہ مودی کی حکومت ہندو قوم پرست یا مسلم دشمن حکومت ہے۔
بھارت کی سفارتی پالیسی میں مسلم ممالک سے اچھے تعلقات رکھنا اہم ہے، حیرت انگیز طور پر دہلی اسی دوران اسرائیل کے ساتھ بھی دفاعی تعلقات استوار رکھنا چاہتا ہے، مزید یہ کہ بھارت خلیجی ریاستوں مثلاً سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرچکا ہے، اس کے ساتھ انفرا اسٹرکچر کی تعمیر کے لیے بھارت خلیجی ممالک کے حریف ایران کے ساتھ بھی تعاون کررہا ہے بلاشبہ یہ ناممکنات میں سے ہے یا یہ کہ بھارت بین الاقوامی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کررہاہے۔
آج کل مغربی مبصرین اس پر گفتگو کررہے ہیں کہ یہ دنیا یک قطبی ہے، دو قطبی ہے یا تین قطبی۔ لیکن ایک بات طے شدہ ہے کہ امریکا بھی دوسرے ممالک کے لیے ایک قطب اور ایک نمونہ ہے۔ عالمی سطح پر امریکا بہتر کام کرسکتا ہے لیکن علاقائی سطح پر بین الاقوامی معاملات کافی پیچیدہ ہوتے ہیں۔ جنوبی ایشیا اور خلیجی ممالک کے تعلقات میں الجھاؤبھی ایک علاقائی الجھاؤ ہے، جسے سمجھنے کے لیے بھارت کے پرانے بین الاقوامی نظریات کو سمجھنا زیادہ بہتر ہے، بجائے یہ کہ ہم اسے مغربی نقطہ نظر سے دیکھیں۔
1919ء میں بنگالی سماجی سائنسدان بنے کمار سرکار نے ’’امریکن پولیٹیکل سائنس ریویو‘‘ میں اپنا ایک دلچسپ مضمون ’’بین الاقوامی تعلقات کا ہندو نظریہ‘‘ شائع کیا۔ مہا بھارت اور سنسکرت پر کام کرتے ہوئے انہوں نے بیرونی ممالک کو 3 اقسام میں تقسیم کیا۔ آری (دشمن)،مدہاما(ثالث) دوست اور دشمن دونوں کے ساتھ الجھا ہوا، اوڈیسینا (لاتعلق) اپنا وزن دوسروں پر ڈالنا۔ ان تینوں اقسام کو ملا کر منڈیلا یا ایک دائرہ بنتا ہے، کمار سرکار کی منڈیلا کے نظریے کو اگر بھارت کی مغربی سرحد پر لاگوکیا جائے تو پاکستان ’’دشمن‘‘ ملک ہے، ایران ’مدہاما‘ میں آتا ہے جو بھارت کے لیے اہم ہے، جب کہ خلیجی ریاستیں طاقت کا توازن برقرار رکھتی ہیں۔
ایران پر لگائی جانے والی امریکی پابندیوں کے باوجود بھارت ایران کے ساتھ کام کرنے اور اس سے تعلقات رکھنے میں کامیاب رہاہے حالانکہ ٹرمپ انتظامیہ نے چاہ بہار میں تعمیراتی بندرگاہ اور ریلوے کو پابندیوں میں شامل نہیں کیا تھا۔ ایران بھارت کا قریبی اتحادی نہیں ہے لیکن مدہاما نظریہ یہ کہتا ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ منڈیلا کے مطابق مدہامامیں رہ کر ایران یہ کرسکتا ہے کہ وہ پاکستان پر مسلسل دباؤ ڈالے اور ایران یہ دباؤ مسلسل ڈال رہا ہے۔
بھارت کے منڈیلا کے مطابق ’مدہاما‘ صحیح جگہ پر کام کر رہا ہے، ایسے میں اوڈیسینا پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ خطے کی ایک ایسی طاقت جو دوسری طرف سے مدد فراہم کر سکے۔ بھارت خلیجی ممالک کی جانب بڑھ چکا ہے، ان میں سعودی عرب، دبئی اور بحرین شامل ہیں۔ یہ تینوں مذہبی، تاریخی اور سیکورٹی کے اعتبار سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔بیسویں صدی کے اوائل میں یہ ممالک بھارت کو صرف سستی لیبر، گھریلو خدمات اور تعمیراتی خدمات کی وجہ سے جانتے تھے، بیسویں صدی کے اختتام پر بھارت کی بڑھتی معاشی نمو نے ڈرامائی انداز میں اسے تبدیل کردیا۔
بھارت کے منڈیلا کے مطابق تیل کی بر آمدات اور سرمایہ کاری ان ممالک سے تعلقات کے لیے ناکافی ہے، بھارت عرب ممالک کے ساتھ طویل مدت کے سیکورٹی تعلقات چاہتا ہے۔ مسلم مذہبی یکجہتی کے ساتھ پاکستان ہمیشہ سے بھارت کی سیاست کا مقابلہ کامیابی سے کرتا آیا ہے۔
یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ اپنے اوڈیسینا کو مکمل کرنے کے لیے بھارت سعودی عرب اور خلیجی ممالک کو پاکستان کے ساتھ دلی تعاون اور حمایت سے روکنے میں کامیاب ہوا یا نہیں۔ 2016ء کے اواخر تک مبصرین کی رائے یہی تھی کہ پاکستان کی ترقی صرف سعودی عرب کے ایک اہم شراکت دار کی حیثیت ہی سے ممکن ہوگی لیکن اصل صورت حال اس وقت سامنے آئی جب سعودی عرب نے امارات سے اتحاد کرتے ہوئے یمن میں مداخلت شروع کی۔ سعودی عرب نے پاکستان سے یمن جنگ میں شرکت کے لیے ائرکرافٹ، وار شپ اور فوجیوں کی درخواست کی تھی لیکن پاکستان نے یمن جنگ میں کسی بھی طرح کی شرکت یا تعاون سے معذرت کرلی۔2010ء کے درمیانی عرصے میں خلیجی عرب ریاستوں نے پاکستان کے بجائے دوسرے ممالک سے فوجیوں کی خدمات اور جدید اسلحہ حاصل کیا۔ انہیں مزید پاکستان کی فوجی تربیت یا ٹیکنیکل تعاون کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اس کے برعکس بھارت نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نہ صرف معاشی مواقع فراہم کیے بلکہ مل کر کام کرنے کو بھی ترجیحات میں شامل کیا۔ بحیرہ عرب میں بحری اور فضائی افواج کی بڑھتی ہوئی تعداد اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ بھارت اپنے مزعوم مقاصد میں کامیاب ہو رہا ہے۔
تاریخی اعتبار سے مقبوضہ کشمیر مسلم اکثریتی ریاست ہے لیکن جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی مخصوص حیثیت ختم کرتے ہوئے اسے بھارت کی ایک ریاست ظاہر کیاتو دوسرے مسلم ممالک یا او آئی سی کی طرف سے بھارت کے خلاف کوئی مذمتی بیان سامنے نہیں آیا، جب کہ دوسری طرف کشمیریوں کی آواز کو دبانے کے لیے بھارت نے ظلم کا ہر طریقہ استعمال کیا اوربھاری اسلحہ کو کشمیریوں کے خلاف ممکنہ تشدد روکنے کے لیے استعمال کیا۔ اس ساری صورتحال پر مسلم ممالک کے حکمرانوں کی طرف سے بھارت کے خلاف کوئی ایک قابل ذکر مذمتی بیان بھی سامنے نہیں آسکا۔
بھارت صرف اوڈیسینا مکمل کرنے کے لیے عرب ممالک سے بہتر تعلقات کی کوشش کررہا ہے اوراس کے لیے اپنے مسلم اقلیتی علاقوں کے حقوق کے ذریعے عرب ریاستوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ کشمیر پر پاکستان کے موقف کو مکمل نظر انداز کرنے کے باوجود او آئی سی بھارت کے مسلم اقلیتی علاقوں کے 11 مختلف مسائل پر سیخ پا ہے اور بھارت میں ’’سی اے اے‘‘ کے حوالے سے ہونے ولے احتجاج پر جواب طلب کررہی ہے۔ سی اے اے سے متعلق 5 موضوعات یا مسائل ہیں جو او آئی سی کی نظر میں بھارت کو جلد ازجلد حل کرنے چاہییں۔ سی اے اے دراصل ایک راستہ ہے جو مسلم اکثریتی علاقوں کے غیر مسلم شہریوں کو بھارت میں پناہ گزین ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے، اس قانون نے بھارت میں بڑے پیمانے پر مزاحمتی تحریک کو جنم دیا ان پُرامن مظاہروں کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ پر پولیس تشدد کے ذریعے، پُر تشدد بھی بنایا گیا۔
علی گڑھ یونیورسٹی کی صد سالہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے مسلمان طلبہ سے درخواست کی کہ وہ جس بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے۔مودی نے مزید کہا کہ سیاست کو ایک طرف رکھ کر صرف ملکی سلامتی اور اس کی بہتری کے لیے کام کریں۔یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ مودی کی یہ تقریر اس وقت سامنے آئی ہے جب اس کے دست راست امیت شاہ نے سی اے اے کے بارے میں یہ اعلان کردیا ہے کہ کووڈ 19 کی وبا کے اختتام تک سی اے اے کے نفاذ کو روک دیا گیا ہے۔
مودی، امیت شاہ یا بی جے پی کو یہ امید نہیں ہے کہ مسلم نوجوان طالب علم ان کی درخواست پر یا سی اے اے پر وقتی پابندی کی وجہ سے محب وطن ہونے کا ثبوت دیں گے لیکن انہیں یہ امید ضرور ہے کہ اس سے بی جے پی کے لیے سراسر دشمنی والے جو جذبات ہیں، ان کی شدت کم ہوجائے گی۔ مودی حکومت ہر وہ کام کرے گی جس سے وہ خلیجی ممالک کا اعتماد حاصل کرسکے۔ مودی حکومت اپنی پارٹی کے جارحانہ فرقہ وارانہ عناصر کو روکنے کی بھی ہر ممکن کوشش کرے گی اور مسلم مظاہرین کوبھی دبانے کی کوشش کرے گی، مودی ہر قیمت پر یہ چاہتے ہیں کہ خلیجی ممالک اور بھارت کے تعلقات آسانی کے ساتھ تعاون کی راہ پر گامزن رہیں۔ یہ تعلقات اب تک اس قدر بہتر ہوچکے ہیں کہ بھارت اور خلیجی ممالک آپس میں اہم موضوعات پر تبادلہ خیال کرنے کے ساتھ سرکاری مشترکہ مشقیں بھی کررہے ہیں۔ مودی حکومت بہت حد تک عرب ریاستوں کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانے میں کامیاب ہوچکی ہے لیکن معاشی طور پر کامیابی اسی صورت میں ممکن ہے جب بھارت میں حکومت اور شہریوں کے ساتھ تعلقات بہتر ہوں گے۔ (ترجمہ: سمیہ اختر۔بشکریہ: اسلامک ریسرچ اکیڈمی)