پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے 3 سال

327

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنے منشور اور نریٹیو کے ذریعے اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کا اعلان اس وقت کیا جب وہ اپوزیشن کا حصہ تھے اور تب سے ہی پاکستان تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین عمران خان ملک کی تباہی و بربادی اور عوام کو تمام تر درپیش مسائل کا اصل ذمہ دار تمام پولیٹیکل پارٹیوں بالخصوص پاکستان مسلم لیگ (ن) ، پاکستان پیپلز پارٹی اور ان کی لیڈر شپ کو ٹھہراتے رہے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرین عمران خان نے پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی اور ان کی لیڈر شپ پر کئی اہم الزام لگائے پر ان الزامات میں چند ایک پر ان کا موقف یقین کامل کی حد تک اور بالکل واضح تھا کہ اس وقت اور ماضی میں اقتدار پر براجمان رہنے والی پولیٹیکل پارٹیاں اور انکی کی لیڈر شپ نااہل ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی درجے کی کرپٹ اور میرٹ کا قتل کرنے والی ہیں۔ ان سیاسی پارٹیوں کے اور انکی لیڈر شپ کے نہ کوئی اصول ہیں اور نہ کوئی نظریات اور قابلیت ان سیاسی پارٹیوں اور انکی کی لیڈر شپ کا سیاست میں آنے کا مقصد صرف اور صرف اقتدار کی سیڑھیاں چڑھ کر اختیارات حاصل کرکے کرپشن اور لوٹ مار کرنا ہوتا ہے۔ ان کے ملک میں ڈیولپمنٹ کے منصوبوں کا مقصد در حقیقت ملکی ترقی نہیں بلکہ کرپشن ہوتا ہے۔ قرضے لینا، ٹیکس لگانا، اداروں میں من پسند افراد کی تعیناتی کر کے ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ملک اور بیرون ممالک جائیدادیں بنانا ہی ان کا وطرہ ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے بانی انتہائی شدت کے ساتھ یہ الزام بھی عائد کرتے تھے کہ ان دونوں جماعتوں کی لیڈر شپ خارجہ پالیسی کو سوچی سمجھی سازش اور پلان کے تحت اپنے ذاتی اور کاروباری مفادات کے لیے استمال کرتے ہیں۔ ملکی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے یا ریاست سے ریاست کے درمیان تعلقات کو بہتر کرنے کے بجائے اپنے انفرادی ذاتی اور کاروباری تعلقات استوار کرتے ہیں تاکہ اپنے مفادات کو مقدم رکھ سکیں اور یہ عمل ان پولیٹیکل پارٹیوں کا نسل درد نسل پچھلی کئی دہائی سے جاری ہے۔ 11 مئی 2013 کے بعد اور 25 جولائی 2018 سے قبل یہ سب کچھ کہنا تھا۔ دوسری سیاسی پارٹیوں اور ان کی لیڈر شپ کے متعلق بانی، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کا انہوں نے انہی تمام الزامات کو اپنے منشور کا حصہ بنا کر باقاعدہ ایک نریٹیو بلڈ کیا اور 11 مئی 2013 کے بعد اور 25 جولائی 2018 سے قبل وہ ہر مظاہرے، احتجاج، احتجاجی دھرنے اور ملک کے کونے کونے میں جا کر اس بیانیہ کو پہچانے کے ساتھ اپنی پارٹی کے منشور اور حکمت عملی سے مکمل آگاہ کرتے رہے۔ تحریک انصاف کا جامع اور مکمل منشور ہے پر ہم یہاں کچھ ان نکات کا ذکر کریں گے جب تحریک انصاف کے چیئرمین بقلم خود ہر تقریر جلسے جلوس ریلی دھرنے خطاب لانگ مارچ میں عوام کو باقاعدہ مخاطب کر کے زبانی کلامی یا اپنا منشور ہاتھ میں اٹھائے بڑی شدت سے اور بار بار ان نکات کا تذکرہ کرتے تھے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین اس وقت کہتے تھے اگر ہماری پارٹی برسراقتدار آتی ہے تو ہماری پارٹی مکمل ہوم ورک کر کے بیٹھی ہے اور حکومت چلانے کے لیے ہمیں کیا کرنا ہے تو سنیں اس وقت ان کا کیا فرماتے تھے۔
1۔ہم اپنے ملک کو ایک اسلامی فلاحی ریاست کی طرز پر استوار کریں گے۔ 2۔سب سے پہلے میں اپنی قوم سے سچ بولوں گا۔ 3۔ ہمارے پاس (200) لوگوں پر مشتمل پروفیشنل ٹیم موجودہ ہے۔ 4۔ قانون کا برتاو امیر اور غریب کے ساتھ ایک جیسا ہوگا۔ 5۔یومیہ ماہانہ سالانہ بنیادوں پر ہونے والی کرپشن کا خاتمہ ہوگا۔ 6۔ اداروں میں ریفارمز کرکے ان کی کارگردگی کو صاف شفاف اور بہتر کیا جائے گا۔ 7۔ مہنگائی خاص کر پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے گریز کیا جائے گا۔ 8۔ عام آدمی مزدور کسان کے حالات کار کو بہتر بنایا جائے گا۔ 9۔ امیر اور غریب کے فرق کو کم کیا جائے گا۔ 10۔ لاکھوں کروڑ افراد کو روزگار کے مواقع فراہم کریں گے۔ 11۔ بے گھروں کو چھت فراہم کریں گے۔ 12۔ انتظامی اور بہتر گورننس کی ضرورت کے تحت نئے صوبوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا ۔ 13۔ بدنام شہرت رکھنے والے قاتلوں چور ڈاکوؤں اور چپڑاسیوں کی حکومتی صفحوں میں رتی برابر گنجاش نہیں ہوگی۔ 14۔ اگر میں پاکستان کا پرائم منسٹر بنا ہو بیرونی ممالک یا آئی ایم ایف سے ہرگز قرصہ نہیں لیا جائے گا۔ 15۔دنیا کے سامنے اپنی قوم کو انتہائی شریف سلجھی ہوئی با ادب باذوق اور متاثر کن قوم کے طور پر متعارف کرائیں گے جسکو دنیا عزت احترام اور قدر کی نگاہ سے دیکھے گی۔ 16۔ملک میں غفلت اور لاپرواہی کے نتیجے میں ہونے والے حادثات کے ذمہ داران کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔ 17۔ منافع خوروں ذخیرہ اندوز جیسے مافیہ کو نشان عبرت بنایا جائے گا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب 25 جولائی 2018 کو ملک بھر میں عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کردیا گیا اور آخر کاروہ دن آگیا جس کی خاطر آپ نے تمام تر کوششیں اور تیاریاں کی تھی اور اس الیکشن میں آپ کے نریٹیو محنت، سوچ اور فکر کا صلہ آپ کو جولائی 2018 کے آخر میں ملک کا 22 واں منتخب پرائم منسٹر منتخب ہونے کی صورت میں ملا۔

عمران خان، آپ کے پرائم منسٹر منتخب ہونے اور مدینہ طرز کی اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کے اعلان اور ماضی کے فرمودات سے ملک بھر کا مزدور کسان اور متوسط طبقے کا ہر فرد یہی محسوس کرتا تھا کہ اپ ہی ہماری امنگوں کے صیح معنوں میں ترجمان ہیں اپ کو ہماری پریشانیوں اور مسائل کا بخوبی اندازہ ہے خاص کر مزدور اور کسان طبقے کو یہ امید مل گئی تھی کہ اب ہمارے انسانی بنیادی حقوق کو کوئی طاقتور طبقہ ہڑپ نہیں کر سکتا ہماری محنت، مشقت اور اجرت پر کسی کو ڈاکہ ڈالنے کی جرأت نہیں ہوگی بہت بنیادی اور روز مرہ کی اشیائے خوردونوش ہماری دسترس میں ہو گی۔ پرائم منسٹر عمران خان صاحب مزدور کسان اور متوسط طبقے کو یقین ہو چلا تھا کہ آپ ہی ہمارے دکھوں کا مداوا کرکے ہمارے مسائل میں کمی کریں گے اور ایک ایسی صبح کا آغاز ہونے جا رہا ہے جس میں مزدور کسان اور متوسط طبقہ دس،دس، بارہ،بارہ گھنٹے محنت مشقت سے اپنے فیملی کے لیے دو وقت کی روٹی کاحصول باعزت اور با آسانی ممکن بنا سکیں گے اور مزدور طبقے کا دہائیوں سے جاری استحصال تھم جائے گا۔ آج آپ کی حکومت کے تین سال مکمل ہو چکے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے اورحالات واقعات جو دکھائی دے رہیں ان کی نشاندہی بھی یہی ہے کہ انتہائی دکھ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ جس ریاست مدینہ اور تبدیلی کے خواب آپ نے دکھائے تھے ان خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے میں ابھی تک آپ ناکام رہیں ہیں۔ اس ناکامی کی بنیادی وجہ ہے کہ آپ بھی اپنے اصولوں پر کمپرومائز کرتے نظر آئے، غلط بیانی کو یو ٹرن کا نام دیا، دوسروں کی طرح آپ کی تیاری بھی نامکمل تھی۔ آپ کے پاس 200 بندوں کی پروفیشنل ٹیم کا کوئی وجود نہیں تھا البتہ آپ نے بھی مانگے تانگے پر اکتفا کیا انصاف اور قانون آج بھی چہرے اور ٹائٹل دیکھ کر اپنا راستہ لیتا ہے۔ کرپشن، منافع خوری، ذخیرہ اندوزی کا خاتمہ یا کمی ہوتی تو آج مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر نہ ہوتی اور چینی جیسے میگا اسکینڈل منظر عام پر نہ آتے آج بھی اداروں میں مظلوم غریب مزدور کسان کی دادرسی نہیں ہوتی آج بھی امیر امیر سے امیر تر اور غریب غریب سے غریب تر والا نظام رائج ہے۔ پرائم منسٹر آج بھی روزگار کے حصول میں پہلے سے زیادہ مشکلات ہیں، میرٹ کا قتل اور سفارش کا کلچر عام ہے۔ آج بھی ہر حکومت کا حصہ رہنے والے اور چاپلوسی میں پی ایچ ڈی کرنے والے آپ کی کابینہ میں شامل ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان آپ نے ملک بھر چند پناہ گاہیں بنائی اور احساس پروگرام کا آغاز کیا جو قابل تعریف ہے پر آج بھی لاکھوں خاندان اپنی چھت سے محروم ہیں۔ وزیراعظم پاکستان ہم نے اور پوری دنیا نے گزشتہ دونوں ایک ٹاک شوز اور 15 جون کو قومی اسمبلی کے مقدس ایوان میں ارکان پارلیمنٹ کے سلجھے ہوئے با ادب، باذوق تہذیب کے عملی روپے کو دیکھا اور شرافت ہمیں اکثر بیشتر دیکھنے اور سننے کو ملتی ہے۔ وزیراعظم گورنر ہائوسز بھی تعلیمی انسٹیٹیوٹ میں تبدیل نہیں ہو سکے نہ ہی ان کا عجم کم ہوا۔ وزیراعظم پاکستان آج مافیہ غریبوں کی جیبوں پر ڈاکا مار کر ذخیرہ اندوزی ناجائز منافع خوری تو کرتا ہی ساتھ آپ سے سبسڈی لینے میں بھی کامیاب ہوجاتا۔ وزیراعظم پاکستان ان 3 سالوں میں کچھ بھی نہیں بدلا اور غریب مزدور اور کسان طبقے کے حالات جوں کے توں نہیں مزید بدتر ہوئے۔ مزدور کسان طبقے کی قوت خرید مکمل جواب دے گئی ہے۔ بنیادی کھانے پینے کی ہر اشیائے خوردونوش کے ریٹ دو سے تین گنا بڑھ گئے، بجلی کے ریٹ میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے، جان بچانے والی ادویات کے ریٹ میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے، مجموعی طور پر مہنگائی نے مزدور طبقے کی کمر تور کر رکھی دی ہے۔ وزیراعظم پاکستان آپ اور آپ کے ترجمان حکومت کو سونے کا بھی بنا کر پیش کر دیں۔ آپ معاشیات اور معاشی اشاریوں کو آسمان کی بلندیوں پر دکھائیں پر حکومتی کارکردگی اور مقبولیت کا بخوبی اندازہ بجلی کا بل دیکھ کر، کریانہ کی دکان، سبزی کے تھڑے یا پھر گوشت والے کے پاس جا کر ہوتا ہے، باقی حکومتی فوج ظفر موج شام کو ٹی وی پر بیٹھ کر جو مرضی میں آئے بولیں اور دعوے کریں، ان تعریفوں اور دعووں سے حقیقت کہاں بدلنے والی ہے۔ وزیراعظم پاکستان اگر سمت درست ہو تو پھر حالات جتنے بھی مشکل ترین اور بدتر ہوں تو انسان اس امید صبر اور تسلی کے ساتھ پیٹ پر پتھر باھند لیتا کہ یہی مشکلات اگلے چند سالوں میں آسانیوں میں تبدیل ہو جائیں گی۔ گوکہ مایوسی گناہ ہے پر مایوسی مشکلات سے نہیں سمت کے درست نہ ہونے پر ضرور ہے میں نے بہت سادہ الفاظ میں صرف وہ بات کی ہے جو آپ کی زبان سے نکلی اور ہمارے کانوں نے سنی۔