حکمرانوں کا رویہ مزدور دشمن ہے‘ بخت زمین

244

سائٹ لیبر فورم کے جنرل سیکرٹری بخت زمین نے جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کا بجٹ میں مزدور کی کم ازکم تنخواہ 20 ہزار مقررکرنا اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہیں کیونکہ بجٹ کے پاس ہونے کے بعد پیٹرول، بجلی، گیس، ادویات اور کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں بے پناہ اضافہ ہوجائے گا جو مزدورں کی پہنچ سے پہلے ہی دور ہیں مزید دور ہو گا۔ لہٰذا وفاقی حکومت سے درخواست ہیں کہ اپنے فیصلے پرنظر ثانی کرکے ورکرکی کم ازکم تنخواہ 30 ہزار مقرر کریں اور ضعیف پنشنرز EOBI کی پنشن کم ازکم تنخواہ کے برابر کی جائے اورہم سندھ حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ لوگ ایک مثال قائم کردیں کہ مزدور کی کم ازکم تنخواہ 30 ہزار مقرر کردیں۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد آپ بااختیار ہیں اور پیپلزپارٹی مزدوروں کی پارٹی ہونے کادعویٰ کرتی ہیں تو سندھ حکومت پیپلزپارٹی کی ہونے پر مزدوروں کے ساتھ اب انصاف کرکے ثابت کریں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جہاں تک محکمہ محنت کی کارکردگی کی بات ہیں تو جناب ان کی کارکردگی موجودہ دور میں بالکل زیرو ہے۔ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ مجھے اصغر علی جونیجو کا دور یاد آگیا جب وہ وزیر محنت تھے تو اپنے ایک فرنٹ مین کے ذریعہ محکمہ محنت کو چلاتے تھے اور کرپشن عروج پر تھی اور اب بھی سیدغنی اپنے فرنٹ مین کے ذریعہ محکمہ کو چلارہے ہیں اور کرپشن عروج پر ہے۔ لیبر ڈپارٹمنٹ کے افسران نے لیبر ڈپارٹمنٹ کو ٹھیکے پر دیا ہے۔ آج بھی 80 فیصد ورکرز کے پاس اپائنٹمنٹ لیٹر نہیں ہیں۔ سوشل سیکورٹی کارڈ، EOBI کارڈ نہیں ہے۔ قانون میں ٹھیکیداری نظام ختم ہیں لیکن سائٹ میں لیبر ڈپاٹمنٹ کی سرپرستی میں چل رہا ہے۔ کم ازکم تنخواہ کے قانون پر عمل نہیں ہورہا ہے۔ اداروں اور سیکورٹی کمپنیوں میں 12۔12 گھنٹے ڈیوٹی لی جاتی ہے، اہلیت اور سیفٹی کے قانون پر عمل نہیں ہوتا، آئے روز فیکٹریوں میں حادثات ہوتے رہتے ہیں جس کی کوئی انکوائری نہیں ہوتی، چاہے کتنے ورکرز ہلاک اور زخمی ہوجائیں، ریکارڈ گواہ ہیں۔ دوسری طرف محکمہ محنت کا ادارہ سوشل سیکورٹی میں اس سے بھی زیادہ کرپشن ہیں ٹھیکیداری نظام ختم ہونے کے باوجود سوشل سیکورٹی ٹھیکیدار کے لیٹر ہیڈ پر کنٹری بیوشن وصول کررہا ہے جو غیر قانونی ہے۔ ادویات پر سوشل سیکورٹی کا اسٹمپ نہیں ہوتا جن کمپنیوں کی ادویات کی گورننگ باڈی میں دی جاتی ہے ان کمپنیوں کی ادویات نہیں ملتی بلکہ کچھی گلی کی ادویات ملتی ہیں۔ ڈاکٹرز اور اسٹاف کمی الگ پر جو ڈاکٹر سوشل سیکورٹی ولیکا اسپتال میں ڈیوٹی دیتے ہیں ان میں سے کچھ ڈاکٹرز ڈیوٹی ہی نہیں دیتے اور سالوں چھٹی پر ہوتے ہیں یا گھر بیٹھ کر تنخواہ لے رہے ہیں اور جو ڈاکٹر ڈیوٹی دیتے ہیں لیٹ آتے ہیں اور جلدی چلے جاتے ہیں اور جعلی ایلفیوں پر ادویات جاری کی جاتی ہیں۔ نظام کو کمپیوٹرائزڈ نہیں کیا جارہا ہے بلکہ رکاوٹ ڈالی جارہی ہے تاکہ کرپشن ہوسکے۔ محکمہ محنت سے منسلک سندھ ورکرز ویلفیئر بورڈ کا حال بھی مختلف نہیں ہیں وہاں کے افسران کرپشن میں سب سے آگے ہیں۔ گلشن معمار لیبر اسکوائر اور نادرن بائی پاس لیبر اسکوائر فلیٹوں کے لیٹر ورکرز کو 2012 میں دیے گئے لیکن ابھی تک سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے آرڈر کے باوجود بجلی، پانی، گیس، سیوریج کا نظام ٹھیک نہیں کیا گیا اور نہ ہی ورکرز کو قبضہ دیا جارہا ہے بلکہ اس طرح کے حالات پیدا کیے جارہے ہیں۔ وہاں کے افسران جن میں کچھ نام نہاد مزدور رہنما بھی شامل ہیں جو کسی بھی ادارے کی ٹریڈ یونین میں نہیں ہیں۔ یہ تمام لوگ مل کر ورکرز کو مجبور کرکے فلیٹوں کو اونے پونے بیچنے پر مجبور کررہے ہیں۔ اگر پانی، بجلی، گیس اور سیوریج کا نظام ٹھیک ہو جاتا ہے تو ورکرز کے یہ دونوں لیبر اسکوائر آباد ہوجائیں گے جو ورکرز ویلفیئر بورڈ کے افسران نہیں چاہتے۔ اس وقت محکمہ محنت میں کرپشن کا راج ہے اور اس میں ان افراد کی ذمہ داری بھی بنتی ہے جو گورننگ باڈی کاحصہ ہیں، اگر ان کی سنی نہیں جاتی تو پھر ان کو اپنا فیصلہ کرنا چاہیے کیونکہ ان کے دستخط کے بغیر کوئی بل پاس نہیں ہوتا۔ وہ مزدور رہنما مزدور کی نمائندگی حق ادا کریں۔