بات کرنے سے قبیلے کا پتا چلتا ہے

509

 

گا لم گلوچ سے ملک کے سب سے معتبر اور معزز ادارے کے ارکان ان لوگوںکے بہت قریب آگئے ہیں جو حکومت کو اٹھتے بیٹھتے گندی گندی گالیوں سے نوازتے رہتے ہیں۔ شرافت اور بے بسی مانع ہے ورنہ مہنگائی اور بے روزگاری نے اکثریت کا منہ گالیوں سے بھردیا ہے۔ گالم گلوچ کی صورت اراکین اسمبلی نے اپنی نسل اور پارٹی کا پتا دیا ہے۔
میں نہیں مانتا کاغذ پہ لکھا شجرۂ نسب
بات کرنے سے قبیلے کا پتا چلتا ہے
اسٹیبلشمنٹ ہی نہیں اراکین اسمبلی بھی زندگی سے بے اندازہ لطف لیتے ہیں۔ اس لطف میں گالی بھی شامل ہو جائے تو کیاحرج ہے۔ عفیفہ بن کر زندگی کا پورا لطف نہیں اٹھایا جاسکتا۔ بعض مرتبہ گالی جذبات کا وہ قرض ہوتی ہے جو جب تک بے دریغ ادا نہ کردیا جائے تشنہ رہتا ہے۔ سلیکٹرز کے منتخب کردہ بھوسی جیسے قائدین جو آٹے جیسا زور نہیں رکھتے، وہ آٹا بن کر کیسے دکھائیں سوائے گالیوں کے شور کے۔ ان کے ناقابل تحریر الفاظ ہی ان کی شخصیت کا نفس مضمون ہیں۔ سیاست دانوںکو کتنا ہی برابھلا کہا جائے گالم گلوچ کی وجہ سے عوام ان سے دور نہیں ہوں گے۔ دیکھ لیجیے گا اگلے الیکشن میں وہ انہیں ہی ووٹ دے رہے ہوں گے۔ عوام ان کے پاس اصلاح کی غرض سے یااخلاقی وعظ سننے نہیں جاتے۔ اپنے مسائل کے حل کے لیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں دوچار گالیاں لیے اور دیے بغیر کام ہی نہیں ہوتا۔ ایسے میں حلقے کے عوام کے کام نکلوانے کے لیے اراکین اسمبلی گالیاں نہ دیں تو اور کیا کریں۔ رفتہ رفتہ گالی عادت بن جاتی ہے۔
نالیوں میں حیات دیکھی ہے
گالیوں میں بڑا اثر دیکھا
گالی جچی تلی ہونی چاہیے۔ اسمبلی میں گالی کا یہ معیار نظر نہیں آیا۔ شاعر نے کہا تھا ’’جی میں آتا ہے یہ مردہ چاند تارے نوچ لوں۔۔۔ اس کنارے نوچ لوں اور اس کنارے نوچ لوں۔۔۔ ایک دو کا ذکر کیا سارے کے سارے نوچ لوں‘‘ یہاں شاعر جس ’’حرکت‘‘ کا ارادہ باندھ رہا ہے یہ آرٹ ہے۔ غصے اور نفرت کا جمالیاتی اظہار۔ جب غصہ اور نفرت فحاشی میں ڈھلتا ہے، اخلاقیات کا دامن چھوڑ دیتا ہے تب وہ گالی بن جاتا ہے۔ آرٹ جذبات کی تنظیم کرتا ہے جب کہ گالی فاسد مادے کا انتشار ہے۔ ہمیں حیرت ہے لوگ اراکین اسمبلی کی گالم گلوچ پر دودو گز کیوں اچھل رہے ہیں۔ پھوڑے پھنسیوں سے پیپ ہی نکلے گی۔ اگر یہ لوگ گالم گلوچ نہ کرتے تواسٹیبلشمنٹ کو ان کے وجود کا احساس کیسے ہوتا، وہ انہیں عوام کی نظروں میں مزید گندہ کرنے کے لیے اسمبلیوں میں کیوں لاتے۔ ان کی گالیوں کی تشہیر کا اہتمام کیوں کرتے۔ عمران خان دو دہائیاں سیاست کرتے رہے کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ کنٹینر پر چڑھ کر گالیاں نکالیں تب اسٹیبلشمنٹ کو جچے کہ کوئی حکومت کے قابل ہے۔
کتنی آسانی سے مشہور کیا ہے خود کو
میں نے اپنے سے بڑے شخص کو گالی دے کر
سیاست استدلال کا کھیل ہے۔ ایک توازن کا نام ہے۔ ہائے توازن پر فراق کا کیا شعر یاد آیا ہے:
ملے دیر تک سو بھی چکے
بہت وقت ہے آئو باتیں کریں
بقول عسکری صاحب ’’اردو شاعری میںبہت کم ایسے اشعار ہیں جن میں یہ لطافت، معصومیت اور تحیر پایا جاتا ہے‘‘۔ آرٹ کس طرح ایک غیر مناسب بات کو بھی بے ضرر اور حسین بنادیتا ہے۔
انگریز سے پہلے جسے گالی دینا ہو اس کی ہجو لکھی جاتی تھی۔ انگریز کے دور میں کانگریسی اور لیگی ایک دوسرے کو نام لیے بغیر بین السطور ملامت کرتے تھے۔ ٹوڈی بچہ اور انگریز کا پٹھو اس زمانے میں بڑی گالی تھی۔ آزادی کے بعد زبانیں بے لگام ہوئیں تو سامراج کے ایجنٹ، عوام دشمن، تخریب کار اور ملک دشمن کے خطابات سے نوازا جانے لگا۔ ایوب خان کو ایک نجس جانور سے مثال دی گئی تو انہوں نے اقتدار سے علٰیحدگی کا فیصلہ کرلیا۔ بعد میں پرویز مشرف نے ان ہی دودو نجس جانوروں کو گود میں اٹھاکر قوم سے اپنا تعارف کروایا تو کسی کو برا نہیں لگا۔ بھٹو کا دور آیا تو فحش نعرے اور نظمیں سیاست کا حصہ بنیں۔ رقاصائوں کے جسموں پر سیاسی مخالفین کے چہرے چسپاں کیے جانے لگے۔ مخالفین کے شجرے اور اہل خانہ کی نجی تصاویر کی اشاعت تک معاملہ جا پہنچا۔ بھٹو جلسوں اور بیانات میں مخالفین کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرتے تھے۔ ایک بڑے جلسے میں ان کا زور کلام گالی تک جا پہنچا۔ خود ان کے لیے گنجے کے سر پر ہل چلے گا جیسے جملے استعمال کیے جاتے تھے۔ آج صورتحال یہاں تک آپہنچی ہے کہ جب تک منہ کے قطر سے بڑی گالیاں نہ دی جائیں، انگارے نہ اُگلے جائیں بات ہی نہیں بنتی۔
یہ بے پردگی کا دور ہے۔ وزیراعظم محمد خان جو نیجو، جنرل ضیا الحق کا انتخاب ہونے کے باوجود خود کو ان سے دور رکھتے تھے۔ آج ایک منتخب وزیراعظم فوج کے ساتھ ایک صفحہ پر ہونے کو فخریہ بیان کرتا ہے۔ جونیجو مرحوم ضیا الحق کی فائلیں بھی روک لیا کرتے تھے مگر آج وزیراعظم ایک پیج کی بات کرکے یہ کہنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے کہ وہ آئین کی طرف سے دیے جانے والے اختیار کے باوجود فوج پر کمانڈ اینڈ کنٹرول نہیں رکھتے۔ پہلے فوج کو فرشتے، خلائی مخلوق، محکمہ زراعت اور اسٹیبلشمنٹ جیسے لفظوں سے پکارا جاتا تھا اب نام لے لے کر کھری کھری سنائی جاتی ہیں۔ تصادم اور کشمکش برہنگی تک آپہنچی ہے۔ اس تصادم میں صرف سیاست دان ننگے نہیں ہوئے ہیں انہیں لانے والے بھی بے ستر ہوئے ہیں۔ گالیاں اسی عریانی اور بے پردگی کا اظہار ہیں۔
ہماری سیاست خود پرستوں کا ایسا جنگل ہے جہاں زندگی اپنے لیے ضروری اور دوسروں کے لیے گالی بنادینے سے آگے بڑھتی ہے۔ مجروح، شکست خوردہ ذہنیت اور خوف کے تحت سب ایک دوسرے پر جھپٹ رہے ہیں۔ عمران خان شہباز شریف کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں جو ان سے کہیں بہتر منتظم اور اسٹیبلشمنٹ کا اگلا انتخاب ہوسکتے ہیں۔ وہ نہ شہباز شریف کو جیل سے باہردیکھنا پسند کرتے ہیں اور نہ قائد حزب اختلاف کی صورت بجٹ پر تقریر کرنے کی اجازت دینا گوارا کرتے ہیں۔ گالم گلوچ اور مارپیٹ حکومت کے سینئر وزرا کے تحت منظم کی جارہی تھی۔ کہا جارہا ہے کہ عمران خان کو اسمبلی کی ایک ایک منٹ کی کارروائی سے آگاہ رکھا جارہا تھا۔ گالیوں کی بوچھاڑ، چڑھی ہوئی آستینیں، سیٹیوں کا شور۔ یہ پست اخلاق لوگ ملک وقوم کے قانون ساز اور قوم کی تقدیر کے مالک ہیں۔ گالیوں اور دشمنیوں کے اس شور میں ان کی طرف کسی کی نظر نہیں، ان کا حزن وملال کسی کو نظر نہیں آرہا جنہیں سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ کہاں جائیں؟ کس سے فریاد کریں؟ وہ جو ان کی دنیا بدلنے آئے تھے انہیں انتقام، نفرتوں اور گالیوں سے فرصت نہیں۔ سیاست دان ہوں یا انہیں لانے والی فوجی قیادت اس تشنج کو کوئی محسوس نہیں کررہا جو بھوکے پیٹوں میں جنم لیتی ہے۔ ہمارے حکمرانوںکے نزدیک عوام کی مشکلات کی کوئی حیثیت رہی ہے اور نہ اخلاقیات کی۔ ایک طوائف کی طرح زندگی کے تجربے میں گالی ان کے لیے کوئی منفی بات نہیں بلکہ اہم بات یہ ہے کہ اقتدار کے حصول کے لیے کس کے ساتھ سویا جائے۔