بی آئی آر پروجیکٹ بمقابلہ تھری بی ڈبلیو

361

دنیا میں جس نئی سرد جنگ اور تقسیم کی دھندلی سی تصویر عالمی کینوس پر بنی ہوئی تھی آخر کار اس کے خدوخال پوری طرح واضح ہوگئے۔ دنیا ایک بار پھر پینتیس برس پیچھے کھڑی ہے جب یہ دو بلاکس اور دو سوچوں اور مفادات کے دو متضاد دائروں میں منقسم تھی۔ ایک طرف امریکا کی قیادت میں مغربی بلاک تھا تو دوسری طرف سوویت یونین کی سربراہی میں کمیونسٹ بلاک۔ دنیا کا ہر چھوٹا بڑا ملک اسی تقسیم کے زیر اثر تھا۔ عالمی نظام پر بھی یہی تقسیم حاوی تھی۔ مغربی بلاک چونکہ عالمی نظام پر بالادستی رکھتا تھا اس لیے دنیا میں ہونے والے فیصلوں میں بھی اسی بلاک کی سوچ اور خوش نودی کو اہمیت اور مرکزیت حاصل تھی۔ اب ایک معمولی سے فرق کے ساتھ ایک نئی سردجنگ اور عالمی تقسیم اُبھر رہی ہے اس میں سوویت یونین کی جگہ عوامی جمہوریہ چین سب سے بڑا ہدف ہے یا مدمقابل قوتوں کی قیادت سوویت یونین کے بجائے عوامی جمہوریہ چین کے پاس ہے۔ اس سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ نائن الیون کے بعد سے دنیا میں زیادہ تر فیصلے، اقدامات اور حادثے اسی گریٹ گیم کا حصہ اور اسی عالمی دنگل کے دائو پیچ رہے ہیں۔ افغانستان کی طویل خانہ جنگی، پاکستان میں دہشت گردی اور معاشی بدحالی، ترکی میں اردوان مخالف ناکام بغاوت، ایران میں عوامی مزاحمت، عرب بہار، ملائیشیا میں مہاتیر محمد کا عروج وزوال، بھارت کا مصنوعی طور پر بلند ہوتا ہوا اقتصادی اور سیاسی قد سب گریٹ گیم کا حصہ رہے ہیں۔ اس گریٹ گیم کو جواز دینے کے لیے اقوام متحدہ جیسے عالمی اداروں پر اپنا اثر رسوخ استعمال کرکے دہشت گردی، انسانی حقوق اور جمہوریت کی اصطلاحات کی من پسند اور ذومعنی تشریحات کی گئیں۔
یہ کھیل دو ہزار کی دو دہائیوں میں پوری قوت سے جاری رہا اور اب یہ ایک واضح اور حتمی منزل اور انجام کی طرف بڑھتا ہو ا نظر آتا ہے۔ اس کا فیصلہ کن راونڈ برطانیہ میں ہونے والا جی سیون ملکوں کا اجلاس ثابت ہوا جس میں چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انی شیٹیو کے مقابلے میں بلڈ بیک بیٹر ورلڈ ’’بی تھری ڈبلیو‘‘ منصوبے کا اعلان کیا۔ جی سیون ملکوں میں مغرب کے بالادست ممالک امریکا، برطانیہ، جرمنی، کینیڈا، اٹلی، فرانس اور جاپان شامل ہیں۔ ان ملکوں نے پہلی بار اپنے کسی مشترکہ منصوبے کا مقابلہ عوامی مفاد کے نام پر نہیں بلکہ محض چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے اعلانیہ مقابلے کے طور پر کیا۔ اس اجلاس کا مرکزی نقطہ ہی اقتصادی اور سیاسی میدان میں چینی صدر ژی جن پنگ کی جارحانہ پالیسی کا توڑ کرنا اور اس کے مقابلے کے لیے ایک متبادل دنیا تشکیل دینا ہے۔ گویاکہ ماضی کی سردجنگ کی طرح نئی سردجنگ کی بنیاد بھی مثبت نہیں بلکہ اندھی مخالفت کا جنون ہے۔ ماضی میں مغربی بلاک پر کمیونزم کے مقابلے کا جنون سوار تھا اور اب چین کی اقتصادی اور سیاسی قوت کا مقابلہ واحد ہدف ہے اور اس کے لیے چالیس ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کار ی کی جارہی ہے۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے چین کے مقابلے کے لیے مشترکہ حکمت عملی کی ضرورت پر زور دیا اور بی تھری ڈبلیو اس کی عملی شکل ہے۔
چین نے برطانیہ میں ہونے والے ان فیصلوں پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ دن گئے جب چند ملکوں کا چھوٹا سا گروپ دنیا کو ڈکٹیٹ کراتا تھا۔ یہ سب امور اب دنیا کی مشاورت سے طے کرنا ہوں گے۔ انٹرنیشنل آرڈر صرف اقوام متحدہ کے اصولوں پر قائم ہے یہ نظام ملکوں کے ایک چھوٹے سے گروپ کے بنائے ہوئے اصولوں پر قائم نہیں رہ سکتا۔ چین کے اس سخت انتباہ نے نئی سرد جنگ کے خدوخال کچھ اور واضح کر دیے۔ بیلٹ اینڈ روڈ پروجیکٹ چین کا دنیا سے زمینی اور سمندری راستوں سے جڑنے کا منصوبہ ہے جس کا اعلان 2013 میں کیا گیا تھا۔ 139 کے قریب ملکوں نے اس منصوبے میں شمولیت پر باقاعدہ رضامندی ظاہر کی تھی۔ پاک چین اقتصادی راہداری بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا محض ایک حصہ ہے۔ اس منصوبے کے پانچ حصے ہیں جن میں چین کو منگولیا کے زمینی راستے روس سے ملانا، چین کو مشرقی یورپ اور وسط ایشیا سے ملانا شامل ہے۔ چین پاکستان راہداری کا مقصد چین کو بحیرہ عرب سے ملانا ہے۔ چین کی قدیم سمندری گزرگاہ کے راستے ایک منصوبہ بنگلا دیش کے راستے بھارت کو ملانا بھی ہے۔ آٹھ برس قبل چین کے موجودہ صدر ژی جن پنگ نے قازقستان میں اس منصوبے کا باقاعدہ اعلان کیا تھا امریکا روز اول سے اس منصوبے کا مخالف تھا۔ بھارت اگر مگر کا سہارا اور گلگت بلتستان کے متنازع علاقہ ہونے کے نام پر اس منصوبے کی مخالفت کر رہا تھا عملی طور پر امریکا ہی بھارت کی پیٹھ تھپتھپا رہا تھا۔ اسی سے پراعتماد ہو کر بھارت نے سی پیک کو ناکام بنانے کے لیے انواع واقسام کی عسکری تنظیمیں کھڑی کیں اور پاکستان میں سبوتاژ کی کاررائیوں کی سرپرستی کی۔ یورپی ملک نیمے دوروں نیمے بروں کی کیفیت کے باوجود اس منصوبے کے مخالفین کو پناہ اور وسائل فراہم کیے ہوئے تھے۔ ابھی تک امریکا اور اس کے اتحادی بہت چھپ چھپا کر بیلٹ اینڈ روڈ کے عالمگیر چینی منصوبے کی مخالفت پر کمر بستہ تھے اب برطانیہ اجلاس میں انہوں نے کھل کر کھیلنے کا آغاز واعتراف کر دیا ہے۔ چین نے اس کو کولڈ وار کی ذہنیت قرار دے کر شدید ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ ایک طرف کواڈ کے ذریعے چین کا گھیرائو کرنا مقصود ہے تو دوسری طرف جی سیون کے ذریعے اقتصادیات کی دنیا میں چین کا مقابلہ کرنے کے لیے تھری بی ڈبلیو کا ڈول ڈال دیا گیا ہے اور یوں دنیا چار دہائیاں پیچھے پہنچا دی گئی ہے