پچھل پائی بجٹ

420

بجٹ کوئی بھی حکومت پیش کرے اس پر اظہار خیال لفظوں کا زیاں بلکہ قارئین کا وقت بھی برباد کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ مگر مشکل یہ آن پڑی ہے کہ بجٹ پیش کرنا حکومت کی ذمے داری ہے اور بجٹ پر اظہار خیال کالم نگاروں کی مجبوری ہے۔ وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ موصوف نے بہترین بجٹ پیش کیا ہے۔ ٹیکس کے سلسلے میں دایاں دکھا کر بائیاں مارا گیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہماری چادر بہت چھوٹی ہے اور پائوں بہت بڑے ہیں، بڑے لوگوں کے پائوں چھوٹے ہونے کے باوجود بڑے ہی کہلاتے ہیں کیونکہ ان کو چھوٹا کہنا اپنی زندگی کو دائو پر نہیں لگانے کے مترادف ہے۔ وزیر خزانہ نے اس حقیقت کا اعتراف کر لیا ہے کہ وہ عوام کو ریلیف کے نام پر صرف لولی پاپ اور طفل تسلیاں ہی دے سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ عوام کے معاملات میں حکومت کی معاشی چادر چھوٹی کیوں ہوجاتی ہے۔ ارکان اسمبلی، سینیٹرز اور ہم نوائوں کو مراعات اور سہولتیں فراہم کرتے وقت یہ چادر لمبی کیوں ہوجاتی ہے۔ ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ موصوف نے آٹے کی قیمت میں اضافہ کرکے عوام کا آٹا گیلا کردیا ہے۔ مگر یہ حضرت بضد ہیں کہ ہم نے عوام پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا۔
کہتے ہیں کہ پچھل پائی کے پائوں میں یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ ضرورت کے مطابق یو ٹرن لیتی رہتی ہے۔ جب بھی یو ٹرن لینا ہوتا ہے وہ اپنی ایڑھی کو پیچھے لے آتی ہے۔ اور جب کبھی لات مارنا ضروری سمجھتی ہے تو اپنی ایڑھی کو پیچھے لے آتی ہے۔ اور جب ضرورت پڑی ہے تو پائوں کو آگے لا کر نارمل ہوجاتی ہے۔ گویا بجٹ بھی اسی خصوصیت کا حامل ہوتا ہے۔ سو حقیقت یہی ہے کہ بجٹ کسی بھی حکومت کا ہو وہ پچھل پائی کا بجٹ ہی ہوتا ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا ارشاد گرامی ہے کہ موصوف نے سرکاری ملازمین کو ہر ممکن سہولت دی ہے ہمارا بجٹ سرکاری ملازمین پنشن یافتہ بزرگ اور عوام کی امنگوں کا ترجمان ہے۔ بزدار صاحب آپ حکومت کب کررہے ہیں آپ تو کسی کی امنگوں اور اس کے جذبات کی ترجمانی فرما رہے ہیں مگر ترجمانی کرتے وقت مترجم کی طرح اپنی مرضی ٹھونس دیتے ہیں تاکہ ترجمہ ماحول کے مطابق ہو اور قارئین کے قابل فہم بھی ہو۔ اب یہ ایک الگ بات ہے کہ ترجمہ نگار اپنی نگارش کو زیادہ سے زیادہ عام فہم اور دلکش بنانے کے لیے مصنف کے خیالات کا جنازہ نکال دیتا ہے۔ اور ستم بالائے ستم یہ کہ وزیر اعظم عمران خان کے ہم نوا مولانا فضل الرحمن کو سیاست چھوڑ کر نکاح پڑھانے کو مشورہ دے رہے ہیں۔ یعنی اس حقیقت کا اعتراف کررہے ہیں کہ جنازہ پڑھانا ہمارا کام ہے آپ صرف نکاح پڑھائیں۔ بہرحال یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ عمران خان کے ہم نوائوں کو اس حقیقت کا علم ہے کہ جنازہ جیسے ہی پڑھا دیا جائے مردے کو دفنانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ مگر نکا ح پڑھانے کے لیے اسلامی تعلیمات پر عبور حاصل کرنا ضروری ہے ورنہ نکاح قاضی اور دلہا کے لیے عذاب بن سکتا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت عوام کے لیے عذاب بن چکی ہے سو یہ جنازہ پڑھانے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے سو یہ کام بڑی دل جمعی اور انتہائی دیانت داری سے کررہی ہے کہ بے ایمانی کا پہلا اصول ہی ایمان داری ہے۔ بدمعاش سٹرک چھاپ بھی ہو تو وہ اپنے قول وقرار پر قائم رہتا ہے۔ مگر یہ خوش معاش لوگ اپنی خوش معاشی کے لیے ہر ممکن بد معاشی کرتے ہیں۔ اور بڑی دیدہ دلیری اور ڈھٹائی کے ساتھ اسے سیاست کا نام دیتے ہیں اور اس پر عمل پیرا لوگوں کو سیاست دان کہا جاتا ہے۔ سیاست دان اور ڈان میں ایک بنیادی فرق یہی ہوتا ہے کہ ڈان غریبوں کو تنگ نہیں کرتا مگر سیاست دان کا دارومداد ہی لوگوں کی غربت سے استفادہ کرنا ہوتا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت اس معاملے میں اپنی پیش رو حکومتوں کو زیر کرچکی ہے مگر زیر زبر کا یہ کھیل کب تک چلے گا کبھی تو اس کا اختتام ہونا ہی ہے اور تحریک انصا ف بڑی تیزی سے اپنے اختتام کی طرف گامزن ہے۔