افغان امن، طالبان کافی ہیں

637

وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کہا ہے کہ امریکا کو اپنی سرزمین استعمال نہیں کرنے دیں گے۔ انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ امریکا کو افغانستان میں کارروائی کے لیے اپنی سرزمین یا فضائی اڈے فراہم کیے جائیں۔ دلچسپ اور اہم بات یہ ہے کہ وزیراعظم نے یہ باتیں امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی ہیں۔ گویا پیغام وہاں پہنچ گیا جہاں پہنچانا مقصود تھا۔ امریکی ٹی وی اینکر کو اس جواب پر حیرت ہوئی اور اس نے حیران ہو کر سوال دہرایا کہ کیا آپ یہ بات سنجیدگی سے کہہ رہے ہیں۔ وزیراعظم نے اس پر پھر دہرایا کہ قطعاً اجازت نہیں دیں گے۔ چونکہ امریکی نائب وزیر دفاع اپنی کمیٹی کو بریفنگ میں یہ خبر دے چکے ہیں کہ پاکستان نے اپنی سرزمین اور فضائی حدود کے استعمال کی اجازت دے دی ہے اور وہ یہ بات افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کے بعد پیدا ہونے والے حالات کے تناظر میں کہہ رہے تھے۔ وزیراعظم عمران خان نے جو کچھ کہا ہے اگر وہی بات سچ ہے تو پھر یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم نے ایک ٹھوس بات کہی ہے۔ انہیں اس موقف پر تمام پارلیمانی اور غیر پارلیمانی سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں بھی لینا چاہیے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر کس نے امریکا کو پاکستانی حدود کے استعمال کی اجازت دی تھی جس پر امریکی نائب وزیر نے بیان دیا اور یہ اخباری بیان نہیں تھا۔ امریکی ایوان نمائندگان یا سینیٹ کمیٹی کے سامنے بیان کا مطلب حلفیہ بیان ہی ہوتا ہے اگر جھوٹا قرار پائے تو مذکورہ افسر یا وزیر کی چھٹی ہوجاتی ہے۔ گویا معاملہ صاف نہیں ہے۔ کسی نے تو امریکا کو یقین دہانی کرائی ہے۔ اس معاملے میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ابتدائی طور پر امریکا کو زمین اور فضائی حدود کے استعمال کی اجازت کی بات سامنے آئی تھی۔ کوئی اڈا دینے کا ذکر نہیں تھا۔ اس کے بعد وضاحت آئی کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان فضائی حدود کے استعمال کی اجازت کا معاہدہ تو پہلے سے ہے یہ مشرف دور میں ہوا تھا، ہم نے کوئی نئی اجازت نہیں دی ہے۔ پھر دو تین دن میں اڈے دینے کی بات سامنے آگئی۔ یہ لفظ کہاں سے آیا اس کی بھی تلاش کرنی ہوگی۔ اصل بات یہی ہے کہ امریکا یا کسی بھی ملک کو کسی پڑوسی کے خلاف کارروائی کے لیے اپنی سرزمین یا فضائی اڈے یا فضائی راستے استعمال کرنے کی اجازت دینی ہی نہیں چاہیے۔ پاکستان تو اس کی بھاری قیمت ادا کرچکا۔ جہاں تک اعلان کرنے کی بات ہے تو لوگوں کو یاد ہونا چاہیے کہ جب جنرل پرویز مشرف منتخب حکومت برطرف کرکے اقتدار پر قابض ہوئے تھے تو وہ بھی اسی لہجے میں غیر ملکی صحافیوں کو بتا رہے تھے کہ افغان معاشرہ اور ثقافت الگ ہے اس پر یورپی ثقافت اور اقدار نہیں تھوپی جاسکتیں اور یہ کہ کشمیری تحریک حریت ہے۔ بغاوت یا دہشت گردی نہیں۔ لیکن چند ماہ میں یہ اعلانات اور ٹھوس جملے ہوا میں اُڑ گئے۔ افغان ثقافت جہالت قرار پائی اور کشمیری دہشت گرد۔ پھر آج اس کو پورا خطہ بھگت رہا ہے۔ وزیراعظم اعلان کے نہ صرف خیر مقدم کیا جانا چاہیے بلکہ اس معاملے میں ان کی مدد کا اعلان بھی کرنا چاہیے۔ لیکن کیا وزیراعظم اپنے اعلان پر قائم رہیں گے اور اگر سنجیدہ ہیں تو اپنے منصب پر بھی رہیں گے۔ یہی سوال پوری قوم کے سامنے ہے۔ معاملہ صرف امریکا کو پاکستانی سرزمین دینے کا نہیں ہے۔ اب تک قوم اس معاملے سے لاعلم ہے کہ چین کے ساتھ سی پیک کن شرائط پر ہوا ہے۔ پاکستان کی سرزمین اور بحری اڈے، سڑکیں وغیرہ کن شرائط پر چین کے استعمال میں آرہی ہیں۔ پاکستان مطلوبہ شرائط پوری نہ کرسکا تو کیا گوادر بھی سری لنکن جزیرے کی طرح چین کی ملکیت بن جائے گا؟ امریکا کو دفاعی تعاون کے نام پر اور چین کو اقتصادی تعاون کے نام پر پاکستانی اثاثے حوالے کرنا کسی طور عقلمندی نہیں ہے۔ لیکن ہمرے حکمران اور سی پیک کے ضمانتی ادارے بار بار چین کو یقین دلا رہے ہیں کہ اس کی سرمایہ کاری محفوظ ہے۔ لیکن پاکستانی قوم اپنی جغرافیائی، نظریاتی، ثقافتی حدود کا تحفظ چاہتی ہے۔ جبکہ پاکستانی حکمران اس ملک کی جغرافیائی، نظریاتی، ثقافتی حدود کو بار بار پامال کرتے ہیں اور ان کو بسا اوقات عملاً فروخت کردیتے ہیں۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے اس حوالے سے کہا ہے کہ افغانستان سے امریکا کے انخلا کے بعد قیام امن تنہا پاکستان کی ذمے داری نہیں ہے۔ تمام شراکت داروں کو مل کر یہ ذمے داری ادا کرنی ہوگی۔ وزیر خارجہ شاید یہ بھول گئے کہ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا جس قوت کی وجہ سے ہورہا ہے وہ افغانستان میں امن کے قیام کے لیے تنہا کافی ہے۔ جیسا کہ افغان طالبان نے کہا ہے کہ تمام غیر ملکی قوتیں افغانستان سے نکل جائیں، ان میں ترک افواج کو بھی شامل کیا ہے، جبکہ امریکا نے کابل ایئرپورٹ کی سیکورٹی ترکی کے حوالے کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ہمارے خیال میں تو پاکستان سمیت تمام شراکت داروں کو افغانستان کے تمام معاملات سے الگ ہوجانا چاہیے۔ جن لوگوں نے 20 برس امریکا، ناٹو، افغان چمچوں اور دنیا بھر کی افواج کی جم کر پٹائی کی اپنے آپ کو جاہل اجڈ اور دہشت گرد کہنے والوں کو اپنی عزت کرنے پر مجبور کردیا۔ امریکی اور جدید ٹیکنالوجی کو ہر شعبے میں شکست دی۔ وہ افغانستان کا نظام چلانے کے اہل ہیں۔ شراکت داروں کی افغانستان میں امن کے نام پر مداخلت افغان امن کو تباہ کرنے کے مترادف ہوگی۔ طالبان کے اقتدار میں آنے کی خبر کے بعد کی صورت حال یہ ہے جس کا اظہار وزیر داخلہ شیخ رشید نے کیا ہے کہ 24 سو افغان اہلکاروں نے طالبان میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔ 38 مقامات پر لڑائی ہورہی ہے۔ انہوں نے نئی صورت حال کے لیے تیار رہنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ جو اشارہ شیخ رشید صاحب کررہے ہیں اس کا مقصد تو وہی بتا سکتے ہیں لیکن افغانستان کی صورت حال سے تیار رہنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ وہاں طالبان کی حکومت بننے دی جائے، اس کو مستحکم کیا جائے اور اسے ہی وہاں امن قائم کرنے دیا جائے۔ امریکا نے ترکی کو کابل ایئرپورٹ کی سیکورٹی دے کر افغانستان میں پاکستان اور ترکی کے درمیان فساد کے امکانات بھی پیدا کردیے ہیں۔ چونکہ ترکی بہت سے معاملات میں امریکا کا حلیف ہے اس لیے اسے اپنے معاہدوں کی پاسداری کرنا ہوگی، جبکہ طالبان اور افغان اس کے حلیف نہیں ہیں۔ افغان امن کی واحد ضمانت یہی ہے کہ تمام شراکت کے دعویدار پہلے مرحلے میں وہاں سے نکل جائیں، پھر ضرورت پڑنے پر وہاں کے حکمرانوں کی رضا مندی اور باہمی اتفاق سے جس کو جتنا عمل دخل ملے وہ وہاں جائے۔