تاجربرادری اور سول سوسائٹی کی عدالت عظمیٰ کے تجاوزات سے متعلق فیصلوں پر نظرثانی کی درخواست

188

کراچی ( اسٹاف رپورٹر)کراچی کی تاجر برادری اور سول سوسائٹی کے رہنمائوں نے تجاوزات کے حوالے سے عدالت عظمیٰ کے حالیہ فیصلوں پر نظر ثانی کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس سے اپیل ہے کہ وہ تمام متاثرین کو سنیں،کراچی میں ماسٹر پلان نہ بننے کی سزا کاروباری طبقے کے بجائے متعلقہ اداروں کو دی جائے،کراچی میں غیرقانونی تعمیرات کا حل نکالا جائے،اگر عمارتوں کو مہندم کا سلسلہ آگے بڑھا تو نہ جانے کتنی عمارتیں ٹوٹیں گی، شہر میں تعمیراتی صنعت میں سرمایہ کاری مکمل بند ہوجائے گی،شہر کی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے نظام وضع کیا جائے۔ان خیالات کا اظہار آباد کے چیئرمین فیاض الیاس ایف پی سی سی آئی کے چیئرمین ناصر حیات مگوں، فردوس شمیم نقوی، محسن شیخانی،کراچی چیمبر کے صدر شارق ووہرا،سیلانی ٹرسٹ کے مولانا بشیر فاروقی،عبداللہ رفیع اور دیگر نے اتوار کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس میں کیا۔پریس کانفرنس میں نسلہ ٹاور کے مکین اور پویلین اینڈ کلب اور الہ دین پارک کے انتظامیہ بھی شریک ہوئے ،آباد کے چیئرمین فیاض الیاس نے کہا کہ کراچی شہر کو بچانے کے لیے آئے ہیں،غریب لوگ 50سال سے مقیم ہیں،ہر طرح کی قانونی دستاویزات موجود ہیں۔لینڈ ڈیپارٹمنٹ اور ریونیو سمیت 17 این او سیز لے کر عمارتیں تعمیر کی گئیں،اگر عمارتیں غیر قانونی ہیں تو ہمیں سنا بھی جائے،نقصان اٹھانے والے عوام کو بھی نہیں سنا جارہا،شہر 54 فیصد کچی آبادیوں پر مشتمل ہے، تعمیراتی صنعت نہ ہوتی تو یہ تناسب 80 فیصد ہوتا۔ ایسے فیصلوں سے لوئر کلاس کو نقصان ہورہا ہے، عمارتیں آباد ہونے کے بعد این جی اوز کے کہنے پر عمارتوں کو غیرقانونی قرار دے دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہاگجر نالہ کی آبادی لیز اور قانونی ہے،رہائش دینا ریاست کی ذمے داری ہے،بغیر سنوائی کے الہ دین کو منہدم کرنے کا حکم جاری کردیا،س وقت کچھ معاملات جلد ہورہے ہیںجوتعمیرات کی صنعت اور کاروبار کے لیے نقصان دہ ہیں۔ پی ٹی آئی رہنما ورکن سندھ اسمبلی فردوس شمیم نقوی نے کہا کہ چیف جسٹس کے مقاصد نیک ہیں، ایس بی سی اے کی جانب سے اگر منظوری دے دی جائے اس کے بعد اعتراض نہیں ہونا چاہیے،کراچی کا ایک حصہ ایسا بھی ہے جہاں کوئی فارمیلیٹی پوری نہیں ہوتی۔ 1990ء کے ایم سی کے پارکوں کا برا حال ہے اسکا کوئی نہیں پوچھتا۔نسلہ ٹاور کا کیا ہوگا۔جو فلیٹ 1 کروڑ کا تھا اب 4 کروڑ کا ہوگیا،جو ریگولرائز ہوسکتے ہیں انہیں کریں،3 سال سے زیادہ ہوگئے کہتے ہوئے کہ ماسٹر پلان دے دیں1974ء کا ماسٹر پلان ہے۔سر پر کفن باند کر نکلا ہوں۔اس ملک کی ترقی چاہتے ہیں۔ ماضی کی غلطیوں کو ریگولرائز کیا جائے۔ متاثرین کے نقصانات کا ازالہ سندھ حکومت سے کرایا جائے۔صدر ایف پی سی سی آئی ناصر حیات مگوں نے کہا کہ کراچی میں غیرقانونی تعمیرات کا حل نکالا جائے۔کراچی کی بہتری کے منصوبوں میں عوام کا فائدہ مدنظر رکھا جائے۔نسلہ ٹاور 1953ء کی لیز ہے ۔چیف جسٹس سے ایک کمیٹی کی تشکیل کی اپیل ہے۔بلڈر سوال کرتے ہیں اب کس لیز یا این او سی پر اعتبار کریں۔ فیصلے کو چیلنج نہیں کرتے عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے پورا شہر متاثر ہوگا۔سیلانی کے مولانا بشیر فاروقی نے کہا کہ پاکستان صرف سندھ نہیں،کیا دوسرے صوبوں میں اس طرح کوئی لیز عمارت گرائی گئی؟۔اللہ تعالیٰ نے قصاص کے ساتھ دیت کا بھی راستہ دیا ہے۔ کراچی چیمبر کے صدر شارق ووہرا نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کو سلام پیش کرتا ہوں جو کراچی کو مافیاز سے محفوظ رکھنے کی کوشش کررہی ہے۔ 2012ء میں زمینوں کی منتقلی پر پابندی کی وجہ سے شہر کی صنعتی ترقی کا عمل رک گیا۔عدالت کے حکم پر سندھ حکومت کے غلط طریقے سے عمل درآمد سے مایوسی پھیلے گی۔کراچی کے ترقیاتی اداروں میں بے جا مداخلت نہ کی جائے۔کراچی چیمبر سمجھتا ہے کہ شہریوں کی تکالیف عدالت عظمیٰ سے نہیں ذمے دار وہ ادارے سے ہیں جنہوں نے عدالت کو غلط معلومات دیں۔کراچی سے صنعتیں منتقل ہورہی ہیں۔ کراچی کوضروریات کے مطابق درست کیا جائے۔بلڈر محسن شیخانی نے کہا کہ لارجر بینچ تشکیل دیا جائے۔ثبوت کی بنیاد پر فیصلے کیے جائیں۔ٹرائل کورٹ ہونی چاہیے۔غیرقانونی کام کرنے والوں کے خلاف فیصلے کیے جائیں۔فاران سوسائٹی میں 40سال پرانی مسجد شہید کردی گئی۔نمازیوں اور اہل علاقہ کے ساتھ ہتک آمیز سلوک کیا گیا۔محسن شیخانی نے کہا کہ آباد قانونی متاثرین کے ساتھ ہیں،کوشش کریں گے کوئی عمارت نہ ٹوٹے،عمارت توڑنے سے زندگیاں برباد ہوجائیں گی۔اگر نسلہ ٹاور گرایا گیا تو کراچی میں سرمایہ کاری اور کاروبار بند کردیں گے۔عبداللہ رفیع نے کہا کہ25 سال قبل الہ دین پارک کو لیز ملی۔فیس کی مد میں کے ایم سی کو کئی کروڑ روپے ادا کیے۔دکانداروں کو ہمارے سامنے کھڑا کردیا،ہمیں سنا جائے۔