ملک میں ماہی گیری کی ستر فیصد معیشت ختم ہوچکی ،محمد علی شاہ

155

بدین (نمائندہ جسارت) پاکستان ایکو سوشل موومنٹ کے کنوینر اور ماہی گیر رہنما سید محمد علی شاہ نے کہا ہے کہ گورنمنٹ اور میرین فشریز کی سروے رپورٹ کے مطابق فشریز کا شعبہ خطرات کا شکار اور ستر فیصد ماہی گیری کی معیشت ختم ہوچکی ہے۔ پاکستان فشر فوک فورم ضلع بدین کے انتخاب اور نومنتخب عہدیداروں کی تقریب حلف برداری سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان فشر فوک فورم کے مرکزی چیئرمین سید محمد علی شاہ نے کہا کہ پاکستان کا کوسٹ ایریا 1050 جس میں ستر فیصد سندھ کا کوسٹ ایریا ہے، دریا میں پانی کی مسلسل قلت کوٹری ڈائون اسٹیم میں گنجائش اور مطلوب پانی کا بہاؤ کم ہونے کے باعث دریا سندھ کا ڈیلٹا تباہ ہوگیا ہے، یہ وجہ ہے کہ سمندر زمین کے اوپر اور زیر زمین بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ بدین، سجاول، ٹھٹھہ کی پندرہ لاکھ ایکڑ سے زائد زمین سمندر کی زد میں آچکی ہے۔ ڈیمز اور پانی کے ذخائر ٹیل کے اضلاع بدین، سجاول، ٹھٹھہ اور ڈیلٹا بہت بڑے بحران اور خطرات کا باعث اور شدید پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دنیا میں ستر فیصد مچھلی جھینگے کی پیدوار دریائی ڈیلٹا سمندر اور دریائی ملاپ کے علاقوں کنٹینینٹل شیلوز سے ہوتی ہے، جو کہ دریاے سندھ کے ڈیلٹا میں پانی کی کمی کے باعث مچھلی، جھینگے اور دیگر آبی ذخائر کی پیدوار میں خطرناک حد تک کمی آچکی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی میں مسلسل اضافہ قدرتی نظام کو متاثر کر رہا ہے۔ سید محمد علی شاہ نے کہا کہ کراچی فشر مین کوآپریٹو سوسائٹی ماہی گیروں سے مچھلی، جھینگے کے شکار کا دس سے بارہ فیصد ٹیکس اور کمیشن کے نام سے وصول کیا جاتا ہے۔ فشرمین سوسائٹی کے سات ڈائریکٹر ماہی گیر اور سات حکومتی اور یہ تمام کراچی سے ہی لیے جاتے ہیں جبکہ بدین، سجاول، ٹھٹھہ کے ماہی گیر روزانہ کروڑوں روپے کی مچھلی، جھینگا کراچی ہاربر پر فروخت کے لیے لے کر جاتے ہیں اور اس کا ٹیکس اور کمیشن وصول کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود بدین، سجاول، ٹھٹھہ کو فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی میں نمائندگی نہیں جبکہ سالانہ کروڑوں روپے سوشل ویلفیئر فنڈ کے ماہی گیروں میں تقسیم کیے جاتے ہیں، جو صرف کراچی کے ماہی گیروں کے لیے مختص ہیں۔ بدین، سجاول اور ٹھٹھہ کے ماہی گیروں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ بدین کے ماہی گیر فشریز فشر مین سوسائٹی میں نمائندگی کے لیے جدوجہد کے ساتھ ماہی گیر کے دستخط سے درخواست فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی کو دیں، درخواست منظور نہ ہو تو سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کریں گے اور اپنا حق لے کر رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کے ماہی گیر اپنے جائز اور قانونی حقوق سے بھی محروم ہیں، حکومت نے پانی کے ذخائر پر سے ٹھیکیداری نظام تو ختم کردیا ہے پر افسوس آج بھی دریاؤں، ندی نالوں، نہروں، سیم نالوں، جھیلوں اور دیگر 12 سو سے زائد آبی ذخائر پر حکومتی شخصیات، بااثر مشیروں، پیروں، وڈیروں، سرداروں اور زمینداروں کے قبضے ہیں۔ سید محمد علی شاہ نے کہا کہ پانی نہ صرف انسانی زندگی ہے بلکہ آبی حیات کے لیے بھی لازمی ہے۔ مختلف منصوبوں کے نام پر دریاؤں پر رکاوٹیں ڈال کر قدرت کے نظام سے خطرناک کھیل کھیلا جارہا ہے، جس کو روکنا ہوگا۔ اس موقع پر معروف سماجی رہنما اقبال حیدر قنبرانی، ایچ یو جے کے نائب صدر، بدین پریس کلب کے صدر تنویر احمد آرائیں، ایوان صحافت کے صدر حاجی خالد محمود گمھن، پیپلز پارٹی کے رہنما سردار انور ملاح، عبدالغفور میمن، ایس ٹی پی کے شاہ نواز سیال، نومنتخب فشر فوک فورم کے صدر نبی بخش ملاح، سیکرٹری عمر ملاح، اسلم ملاح اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر سماجی خواتین رہنماؤں عابدہ سموں، پروین جوکھیو، ناظم وگیو، فدا سومرو سمیت سیکڑوں ماہی گیر، سیاسی، سماجی رہنماؤں اور کارکن بھی موجود تھے۔ اس موقع پر پاکستان ایکو سوشل موومنٹ کے کنوینر اور ماہی گیر رہنما سید محمد علی شاہ نے فشر فوک فورم ضلع بدین کے نومنتخب عہدیداروں سے حلف بھی لیا۔