اگر پاکستان میں۔۔۔

411

 

دو مثالوں سے اس نظام کے عظیم اور بنیادی نقص کو سمجھا جاسکتا ہے:
کلبھوشن یادیو بھارت کی پاکستان دشمن سرگرمیوں کا استعارہ ہے۔ بھارت کہاں کہاں اور کس کس طرح پاکستان کے خلاف سرگرم عمل ہے کلبھوشن کی شکل میں اسے دیکھا بھی جاسکتا ہے اور اس کی گہرائی کا اندازہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ کلبھوشن 3مارچ 2016 کو بلوچستان سے گرفتار کیا گیا۔ گرفتاری کی خبر کے ہمراہ ایک ویڈیو بھی جاری کی گئی تھی جس میں اپنے اعترافی بیان میں اس نے کہا تھا کہ وہ انڈین نیوی کا حاضر سروس افسر ہے اور بلوچستان میں اس کی آمد کا مقصد بلوچ علٰیحدگی پسندوں سے مالاقات اور مدد فراہم کرنا تھا۔ کلبھوشن نے پاکستان میں حسین مبارک پٹیل کا نام اختیار کیا تھا۔ 26مارچ کو حکومت پاکستان نے بھارتی سفیر کو طلب کرکے بھارتی جاسوس کے غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخلے اور کراچی اور بلوچستان میں دہشت گردی میں ملوث ہونے پر با ضابطہ احتجاج کیا۔ اپریل 2017 میں پاکستان کی فوجی عدالت نے اسے جاسوسی، تخریب کاری اور دہشت گردی کے الزام میں موت کی سزا سنائی۔
8مئی 2017 کو بھارت نے عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیا۔ درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان نے 1963 کے ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کی ہے۔ جس کی شق 36 کے تحت کلبھوشن یادیو کو نہ ہی قونصلر رسائی دی گئی اور نہ ہی اس کے حقوق بتائے گئے۔ اسی روز انڈیا نے یہ استدعا بھی کی کہ یادیو کو اس کیس کے تمام نکات پر دلائل دیے بغیر سزائے موت نہ دی جائے اور اس ضمن میں لیے گئے تمام اقدامات کے بارے میں عدالت کو بتایا جائے۔ 17جولائی 2019 کو عالمی عدالت انصاف نے اپنے فیصلے میں پاکستان کو کہا تھا کہ وہ مبینہ جاسوس کی سزائے موت پر نظر ثانی کرے اور انہیں قونصلر رسائی دے۔
پاکستان کا قانون فوجی عدالتوں کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کا حق فراہم کرتا ہے۔ لیکن معاملہ چونکہ ایک بھارتی جاسوس اور عالمی عدالت انصاف کا ہے لہٰذا اس کے فیصلے پر صحیح طریقے سے عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان نے 28مئی کو انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس ریویو اینڈ ری کنسیڈریشن آرڈی ننس 2020 نافذ کیا۔ اس ماہ 10جون 2021 کو حکومت نے قانون سازی کا تین سالہ ریکارڈ توڑتے ہوئے اس بل کو قانونی شکل دینے کے لیے 20بلز کے ڈھیر میں چھپاکر، اسمبلی کی معمول کی کارروائی روک کر یہ بل غیر معمولی طریقے سے پیش کرکے قومی اسمبلی سے منظور کروالیا۔ بل کا مقصد کلبھوش کو سہولتیں مہیا کرنے کے لیے قانونی ترامیم کرنا ہیں۔ یہ بل سینیٹ میں بھی اسی کمال کے ساتھ پاس کرالیا جائے گا۔ یہ بندوبست اس لیے کیا جارہا ہے کہ وہ کلبھوشن جس نے خود پاکستان میں تخریبی کارروائیوں اور دہشت گردی کا اعتراف کیا ہے اسے وہ تمام سہولتیں دی جائیں جس کے بعد اس کی رہائی ممکن ہوسکے لیکن حکمرانوں کا نام اس غداری میں نہ آسکے۔ اس سے پہلے کلبھوشن کے اہل خانہ سے اس کی ملاقات کو عظیم انسانی خدمت بناکر پیش کیا گیا تھا جبکہ پاکستان میں لاپتا افراد اس انسانی خدمت سے محروم ہیں۔
فرض کیجیے اگر بھارت نے پاکستان کے کسی جاسوس کو اس طرح رنگے ہاتھوں پکڑا ہوتا کیا وہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلوں کی ذرہ برابر پروا کرتا۔ پاکستانی جاسوس پکڑنے کی صورت میں اگر پاکستان عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرتا تو یقین رکھیے پاکستان کی طرح بھارت قطعاً عالمی عدالت میں دوڑتا ہوا نہ جاتا اور نہ مقدمے کی پیروی کرتا۔ مقبوضہ کشمیر میں اپنے مفاد کے سامنے بھارت نے آج تک اقوام متحدہ کی قراردادوں کی پروا نہیں کی۔ یہ تو ہم ہیں جو غریب کی جورو سب کی بھابھی بنے ہوئے ہیں۔ امریکا اور بھارت سے لے کر اقوام متحدہ، عالمی عدالت انصاف، ایف اے ٹی ایف، آئی ایم ایف، سعودی عرب کی ناراضی، یو اے ای کی خفگی نجانے کس کس کا خوف ہمارے تعاقب میں رہتا ہے۔ کس کس کے نام سے ہماری سول اور فوجی قیادت تھر تھر کانپنے لگتی ہیں۔ معاملے کا ایک پہلو اور بھی ہے لیکن اس سے پہلے آئیے دوسری مثال کی طرف۔
گزشتہ ماہ کے آخر میں امریکی وزارت دفاع کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا افغانستان میں موجودگی برقرار رکھنے کے لیے پاکستان نے امریکی افواج کو اپنی سرزمین کے استعمال کی اجازت دے دی ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کا یہ موقف سامنے آیا کہ پاکستان میں امریکا کا کوئی زمینی یا فضائی اڈہ موجود نہیں ہے اور نہ ہی حکومت امریکا سے ایسا کوئی معاہدہ کرنے جارہی ہے۔ البتہ پاکستان اور امریکا کے درمیان 2001 سے ائرلائن کمیونی کیشن اور گرائونڈ لائن کمیونی کیشن کا معاہدہ ہے۔ یعنی امریکا کو پاکستان کی زمینی اور فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب امریکا افغانستان سے نکل رہا ہے تو زمینی اور فضائی رسد کے راستوں کی کیا ضرورت ہے اور یہ راستے مہیا کرنے میں پاکستان کا کون سا عظیم مفاد موجود ہے۔
امریکی اخبارات میں خبریں شائع ہورہی ہیں کہ پاکستانی حکمران امریکا سے کہہ رہے ہیں کہ وہ آئی ایم ایف کی شرائط میں نرمی کرائے تو ہم امریکا کو سہولت دے سکتے ہیں۔ خبر یہ ہے کہ امریکا اس بات پر راضی بھی ہے۔ پاکستانی حکمران غداریوں کی ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں جن کے ظاہر ہونے کے بعد ہی پاکستان کے عوام کو پتا چلتا ہے۔ اس سے پہلے پاکستانی قیادت شمسی ائر بیس کا بھی انکارکرتی رہی تھی جہاں سے امریکی ڈرون اڑکر قبائلی مسلمانوں کے چیتھڑے اڑاتے تھے۔ جنرل ایوب خان نے بڈبیر کا اڈہ امریکا کو دے رکھا تھا۔ روس کے غضبناک ہونے کے بعد ہی عوام کو جس کی خبر ملی۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا یہ بیان سامنے آیا تھا کہ ڈرون حملوں پر ہم بظاہر احتجاج کرتے رہیں گے لیکن امریکا حملے کرتا رہے۔ اڈے دینے کے معاملے پر امریکا سے اگر معاملات طے پا گئے یا اس نے زیادہ دبائو ڈالا تو کیا اس امکان کو رد کیا جاسکتا ہے کہ اس معاملے میں بھی قانون سازی کے ہتھیار کو استعمال کیا جائے۔ جو حکمران ایک جاسوس کے معاملے سے نمٹنے کے لیے اسمبلیوں میں قانون سازی کرسکتے ہیں انہیں اس معاملے میں قانون سازی سے کون باز رکھ سکتا ہے۔
معاملہ یہ ہے کہ جمہوریت میں قانون سازی کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہوتا ہے۔ قانون سازی کے اس طاقتور ہتھیار کو حکمران اپنے مفادات اور غداریوں کو چھپانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے افغان جنگ میں لاکھوں افغان مسلمانوں کے قتل عام میں امریکا کا ساتھ دیا، سیکڑوں پاکستانیوں کو گوانتا نامو بے کے بدنام زمانہ عقوبت خانے میں گلنے سڑنے کے لیے امریکا کے سپرد کردیا، امریکا کو اڈے ہی فراہم نہیںکیے پورا پاکستان امریکا کی جھولی میں ڈال دیا۔ پرویز مشرف کی ان غداریوں کا کسی بھی طرح کسی بھی عدالت میں دفاع نہیں کیا جاسکتا لیکن پاکستان کی پارلیمنٹ میں قانون سازی کرکے بغیر کسی شرم وحیاکے پرویز مشرف کے حرام کو حلال کردیاگیا۔ سترہویں آئینی ترمیم میں قانون منظور کیا گیا کہ پرویز مشرف کے پہلے تین سال کے تمام اقدامات کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ کلبھوشن یادیو نے خود پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں اور پاکستانیوں کے خون بہانے کا اعتراف کیا ہے لیکن اسمبلی میں قانون بناکر اسے بچانے کا اہتمام کرلیا گیا ہے۔ امریکی اڈوں کے معاملے کو بھی اسی طرح حلال کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے اراکین پارلیمنٹ اور حکومتیں اپنے اسفل مفادات کے لیے مسلمانوں کے خون بہانے کے حرام عمل کو حلال کرنے کے لیے قانون سازی کرنے میں کوئی پس وپیش یا ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتیں۔ اگر پاکستان میں قرآن وسنت کی حکمرانی ہوتی، ہماری اسمبلیاں قرآن وسنت کے مطابق قانون سازی کرتیں تو کیا ان حرام کاموں کو حلال کیا جاسکتا تھا؟