علاقائی ترقی میں وسط ایشیائی ممالک کاکردار

432

جدید دور میں یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ تجارت اور مستقل رابطے علاقائی ترقی اور خوشحالی کو یقینی بنانے میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ پچھلی چند دہائیوں کے دوران مختلف بین الاقوامی علاقائی اقتصادی تنظیموں کے قیام کے جس کلچر نے جنم لیا ہے اس کے نتیجے میں یورپی یونین، آسیان، شنگھائی تعاون تنظیم، افریقی یونین، خلیج تعاون کونسل، سارک اور اقتصادی تعاون تنظیم (ای سی او) جیسی بڑی علاقائی تنظیموں کا وجود میں آنا اس بات کی دلیل ہے کہ دنیا اگر ایک جانب گلوبل ویلج کا درجہ حاصل کرتی جا رہی ہے تو دوسری جانب علاقائی تنظیموں کے وجود میں آنے سے ایک دوسرے کے قریب واقع ممالک اپنے تنازعات حل کرتے ہوئے اقتصادی ترقی کے ہمہ گیر منصوبوں کو بروئے کار لاکر سماجی ترقی میں ایک دوسرے کے دست وبازو بھی بن رہے ہیں۔ اس ضمن میں پاکستان اور اس خطے کے دس بڑے اور اہم مسلمان ممالک ترکی، پاکستان، قازقستان، ترکمانستان، تاجکستان، ازبکستان، ایران، آذربائیجان، افغانستان اور کرغیزستان کے اتحاد پر مشتمل ای سی او تنظیم جہاں پاکستان کی اقتصادی ترقی میں کلیدی کردار اداکر سکتی ہے وہاں اس پلیٹ فارم سے اس کے متذکرہ دیگر رکن ممالک بھی اپنی ترقی کی رفتار کو مزید مہمیز دے سکتے ہیں۔ معاشی اعداد وشمار کے مطابق پچھلے سال کورونا کے عالمی بحران کے باوجود ان ممالک کی اندرونی علاقائی تجارت تقریباً 53 ارب امریکی ڈالر رہی ہے۔ ای سی او میں شامل ممالک آٹھ ملین مربع کلومیٹر اراضی اور 500 ملین آبادی کے ساتھ دنیا کی کل آبادی کا 6فی صد بنتے ہیں جن میں علاقائی معاشی طاقت بننے کی بھرپور صلاحیت ہے۔ اس ضمن میں کھلی تجارتی منڈی نیز ویزا فری پالیسی، مواصلاتی روابط اور ذرائع نقل و حمل کو فروغ دے کر جہاں ایک مذہب، ایک کلچر ایک تہذیب اور تاریخ کے حامل پچاس کروڑ انسانوں کے درمیان باہمی روابط کو مزید فروغ دیا جاسکتا ہے وہاں یہ تنظیم خطے میں پائیدار ترقی اور غربت کے خاتمے میں بھی مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ 2020 میں ای سی او میں شامل پانچ وسط ایشیائی ممالک کا مجموعی جی ڈی پی 291.1 بلین ڈالر اور غیر ملکی تجارت کا حجم 142.5 بلین ڈالر تھا جب کہ حالیہ برسوں میں ان ممالک کی معیشت میں اعلیٰ شرح نمو 5 سے 7 فی صد تک تھا، عالمی بینک کے تخمینے کے مطابق وسطی ایشیائی ممالک 2021 میں جی ڈی پی کی نمو کی مثبت اشاریوں کو حاصل کرکے 2022 میں شرح نمو میں نمایاں اضافہ کریں گے۔ یہاں یہ بتانا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ وسط ایشیائی ممالک میں قازقستان، کرغزستان اور تاجکستان ڈبلیو ٹی او کے رکن ہیں، ازبکستان ڈبلیو ٹی او کی رکنیت کے لیے سرگرم عمل ہے جبکہ ترکمانستان 2020 سے عالمی تجارتی تنظیم میں مبصر کا درجہ حاصل کرچکا ہے جب کہ ان ممالک کے مابین باہمی تجارت کے لیے سازگار حالات پیدا کرنے کے لیے دو طرفہ معاہدے بھی موجود ہیں۔
اگرچہ وسطی ایشیائی ممالک بین الاقوامی اور علاقائی تجارت کے لیے کھلے ہیں لیکن ان میں قریبی شراکت داری اور ایک دوسرے کے ساتھ مربوط روابط کی ضرورت ہر سطح پر محسوس کی جارہی ہے۔ گزشتہ سال کے دوران وسط ایشیائی ممالک کے غیر ملکی تجارت میں مجموعی طور پر بین الاقوامی تجارت کا حصہ 8.4فی صد تھا جس میں مزید اضافے کی نہ صرف کافی گنجائش ہے بلکہ ایسا کرکے یہ ممالک پورے خطے کی اقتصادی ترقی کے لیے رول ماڈل بھی بن سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ وسط ایشیائی ممالک کے مابین تجارت کے حجم میں قازقستان اور ترکمانستان کا حصہ سب سے کم ہے جس میں تجارت کا مجموعی کاروبار ی حجم بالترتیب 5.5 اور 4.5 فی صد ہے۔ بین الاقوامی تجارت میں تاجکستان اور کرغزستان کی شراکت بالترتیب 28.3 اور 21.0فی صد ہے جب کہ ازبکستان 13.3فی صدکے ساتھ درمیانی پوزیشن پر فائز ہے۔ یہاں اس امر کی نشاندہی بھی اہمیت کی حامل ہے کہ وسطی ایشیا کے اکثر ممالک جو نہ صرف قیمتی قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں بلکہ زراعت اور لائیو اسٹاک کے شعبے میں بھی کافی حد تک خودکفیل ہیں لیکن ان کے یہ وسائل باہمی تجارت کے فروغ کے بجائے اس خطے سے باہرکے ممالک کو فراہم کیے جارہے ہیں جس کا زیادہ تر فائدہ ای سی او میں شامل ممالک کے بجائے روس، چین اور دیگر یورپی ممالک اٹھا رہے ہیں مثلاً قازقستان اور ترکمانستان کی غیر ملکی تجارت جس میں زیادہ ترحصہ ہائیڈرو کاربن مصنوعات کا ہے، اس کی اکثر برآمد ات علاقائی ممالک کے بجائے یورپی ممالک، چین اور روس کو کی جاتی ہیں۔ اس کا ایک اور ثبوت 2020 میں تاجکستان جس کی کل برآمدات میں سونے کا حصہ 58.1فی صد، کرغزستان 50.2فی صد اور ازبکستان 38.3فی صد تھا سوئٹزر لینڈ یا برطانیہ کو برآمدکیا گیا۔ اسی طرح قازقستان سے معدنی مصنوعات کی برآمدات کا تقریباً 66فی صد یورپ کو فراہم کیا جاتا ہے جب کہ ترکمانستان کی برآمدات کا 70تا80فی صد حصہ جس میں قدرتی گیس سرفہرست ہے چین جاتا ہے۔ لہٰذا وسط ایشیائی ممالک اگر بیرونی غیرمسلم ممالک کے بجائے ای سی او ممالک کے درمیان باہمی تجارت کو فروغ دے کر اپنا خام مال یعنی تیل، گیس اور قیمتی دھاتیں یہیں کھپائیں تو اس سے نہ صرف دوردراز کے ممالک کو ہونے والی برآمدات پر اٹھنے والے نقل وحمل کے بھاری اخراجات کی بچت ہوگی بلکہ اس سے خطے میں بین الاقوامی نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچے کی مشترکہ تشکیل اور ایک دوسرے کے وسائل اور تجربات سے استفادے کی راہ بھی ہموار ہوگی جبکہ اس سے وسط ایشیاء سے عالمی منڈیوں تک برآمدی مصنوعات کی ترسیل کے نئے امکانات بھی پیدا ہوں گے جس کی نمایاں مثال پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت چین کا اپنی برآمدات کے فروغ کے لیے اس روٹ کی تعمیر میں کثیر سرمایہ کاری کرنا ہے۔ لہٰذا توقع ہے کہ وسط ایشیائی ممالک اپنی ترقی کے سفر کو تیز تر کرنے کے لیے پاکستان سمیت ای سی او کے دیگر رکن ممالک کے ساتھ اپنے اقتصادی اور دوطرفہ روابط کو مزید فروغ دینے پر توجہ دیں گے۔