جمہوریت کے مفہوم سے عاری لوگ

438

پہلے سب سے بڑے منتخب ایوان قومی اسمبلی میں تماشا لگا، گالم گلوچ ہوئی، اپوزیشن اور حکومتی ارکان باہم دست و گریباں نظر آئے۔ علی نواز اعوان کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی جس میں وہ نازیبا الفاظ استعمال کرتے نظر آئے۔ ایک مضحکہ خیز صورت حال رہی۔ اس حوالے سے دو ویڈیوز بھی سامنے آئیں جن میں سے ایک ویڈیو پاکستان تحریک ِ انصاف کے رکنِ پارلیمان عبدالمجید خان نیازی کی ہے جو پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول زرداری پر جملے کس رہے ہیں، جبکہ ان کے ساتھ بیٹھے تحریک انصاف کے دیگر اراکین بشمول علی امین گنڈاپور اور زرتاج گل ہنس رہے ہیں۔ دوسری ویڈیو میں خواتین کی مخصوص نشست پر منتخب ہونے والی پاکستان تحریک انصاف کی اسما حدید حزبِ اختلاف کی خواتین رہنمائوں سے جن میں مریم اورنگزیب بھی شامل تھیں، پوسٹرز چھینتی دکھائی دے رہی ہیں۔ ملک کے اعلیٰ ترین ایوانوں میں بدتہذیبی کے مناظر پوری دنیا میں دکھائی دیے اور ملک و قوم کی جگ ہنسائی کا باعث بنے۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے بھی کہا کہ قومی اسمبلی میں ہونے والے دنگل سے پاکستان کی دنیا بھر میں سبکی ہوئی ہے۔ پھر اپوزیشن اور حکومت اگلے روز ایوان کی کارروائی رولز کے مطابق چلانے کے فارمولے پر متفق ہوگئیں اور جنگ تھم گئی، جس کے بعد اپوزیشن لیڈر شہبازشریف نے بجٹ پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے ڈھائی گھنٹے تقریر کی کیونکہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان طے یہ پایا تھا کہ ایک دوسرے کے پارلیمانی لیڈرز کی تقریر میں مداخلت نہیں ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ یہ کام اتنے ہنگاموں سے پہلے بھی تو ہوسکتا تھا۔ معاملہ یہاں رکا نہیں، پھر سندھ اسمبلی میں بھی یہی ہوا، اسمبلی کے ارکان سیٹیاں بجاتے رہے، ایک دوسرے پر لعن طعن کرتے رہے۔ پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہنگامہ آرائی کی نذر ہوا۔ یہ اجلاس دو گھنٹے 29 منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا مگر کارروائی محض آدھا گھنٹہ ہی چل سکی۔ بلوچستان اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں بھی ہنگامہ آرائی اور دھکم پیل ہوئی، پہلے حزب ِ اختلاف سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی نے بلوچستان اسمبلی کے گیٹوں کو زنجیروں سے باندھ کر ان پر تالا لگا دیا اور اس کے بعد وہ اسمبلی کے اندر کی طرف گیٹوں کے سامنے کرسیاں لگاکر بیٹھ گئے تاکہ کوئی باہر سے اندر داخل نہ ہوسکے۔ پھر ایم پی ایز ہاسٹل کی جانب سے گیٹ کو بکتربند گاڑی سے ٹکر مار کر توڑا گیا۔ یہ بھی پولیس کی جانب سے ایک ایسی کارروائی تھی جس کا منظر پہلے کسی نے نہیں دیکھا تھا۔
یہ صورت حال بتارہی ہے کہ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف دونوں جمہوریت کے معنی اور مفہوم سے عاری ہیں، اور خود کو، جمہوریت کو اور سیاسی جماعتوں کو ذلیل و رسوا کررہے ہیں۔ یہ لوگ اس بات کا جواز فراہم کرنے والا کام کررہے ہیں کہ فوج آگے بڑھے اور جمہوریت کو لپیٹ دے۔ جب بھی کسی آمر نے جمہوریت کو ڈی ریل کیا ہے یہی الزام لگایا ہے کہ یہ کرپٹ ہیں، ڈیموکریٹ نہیں ہیں اور انہوں نے جمہوریت کو مذاق بنایا ہوا ہے۔ آمروں نے ہمیشہ سیاسی جماعتوں کی ان کمزوریوں ہی کا فائدہ اٹھایا ہے۔ اور ایک بار پھر سیاسی جماعتیں کمزوریوں کا مظاہرہ کررہی ہیں کہ کوئی اٹھے اور جمہوریت کو سبوتاژ کردے، جمہوریت پس منظر میں چلی جائے اور کوئی مسلط ہوجائے۔ ایسا ہوگا یا نہیں ہوگا، یا اس کے امکانات ہیں بھی یا نہیں یہ ایک الگ بات ہے۔ البتہ اس میں ایک زاویہ یہ بھی ہے کہ یہ سب کسی کے کہنے اور کہیں کے اشارے پر تو نہیں ہورہا؟ اگر ایسا ہے تو اس کی ذمے دار اور مجرم سیاسی جماعتیں ہی ہیں۔ اس وقت جمہوریت کو خطرہ جمہوریت کے دعویدار ان سیاست دانوں ہی سے ہے جو جمہوریت کا راگ تو الاپتے ہیں اور ہر طرح کے مفادات اور فوائد حاصل کرتے ہیں، مگر خود جمہوریت پر یقین نہیں رکھتے، اور ان کی جماعتوں میں بھی جمہوریت نہیں ہے چاہے پیپلز پارٹی ہو، مسلم لیگ (ن) ہو یا تحریک انصاف۔ یہ سب موروثی ہیں اور اپنی ساری سیاسی وراثت آگے اپنی نئی نسلوں کو ہی منتقل کرتے ہیں۔ اور پھرکرپشن اور نااہلی میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں۔ یہ سب عوام کے حقوق اور مفادات کو اس بری طرح نظرانداز کرتے ہیں کہ عوام میں ویسے ہی بددلی پیدا ہو جاتی ہے۔ پارلیمنٹ میں سوائے قانون سازی کے ہم دیگر تماشے ہی دیکھتے ہیں۔ حزبِ اقتدار میں ہوں یا حزبِ اختلاف میں، عوامی مسائل سے متعلق قانون سازی سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ حقیقت میں یہ اور ان کی جماعتیں خود مملکت ِ خداداد پاکستان پر بوجھ ہیں، اور جب تک ایک صاف ستھری ایمان دار قیادت ملک کو فراہم نہیں ہوگی جس کے اندر خود بھی جمہوریت ہو، اْس وقت تک جمہوریت کوئی نتیجہ پیدا نہیں کرسکے گی اور ہر روز ہمارے سامنے یہ تماشا ہوتا رہے گا۔