جامعہ کراچی کے مرکزی و ذیلی شاہراوں پر نصب سینکڑوں کھمبوں کے بیشتر بلب خراب

689

کراچی(رپورٹ:منیرعقیل انصاری) جامعہ کراچی کی تمام مرکزی اور ذیلی شاہراوں پر نصب سینکڑوں کھمبوں کے بیشتر خراب بلب تدریسی ادارے کی انتظامیہ کی نااہلی کامنہ بولتا ثبوت ہے جہاں غروب آفتاب کے بعد جامعہ کا بڑا حصہ تاریکی میں ڈوب جاتا ہے اور ایوننگ پروگرامز کی طلبہ و طالبات کے لیے ناشگوار واقعات کا باعث بن رہا ہے۔

شعبہ ابلاغ عامہ کی ایک طالبہ نے بتایا کہ فارمیسی سے گیٹ 4 والی مرکزی سڑک پر درجن بھرکھمبے ہیں لیکن ان پر لگے تمام بلب خراب ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ مغرب کے بعد ختم ہونے والی کلاسزتک اچھا خاصہ اندھیرا ہوجاتا ہے اور تنہا فارمیسی اسٹاپ تک پہنچنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا کیونکہ چند روز قبل انہیں تنہا دیکھ کر دو لڑکوں نے ہراساں کرنے کی کوشش کی تھی۔

آئی ٹی شعبہ سے وابستہ ایک طالبہ نے بتایا کہ وہ اپنے گھر کے لیے مغرب ہونے سے پہلے ہی مسکن گیٹ تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ کلاسز کے اوقات کار کی وجہ سے دیر ہوجائے تو رکشہ کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں جو مالی بوجھ کا سبب بنتا ہے یا پھر دس بارہ لڑکیوں کا گروپ بن جانے کا انتظار کرتی ہیں تاکہ باحفاظت مسکن گیٹ یا فارمیسی اسٹاپ تک پہنچ جائیں۔

ایک طالبہ نے بتایا کہ چند روز قبل ان کی تین سہیلیوں کو کار سوار دو لڑکوں نے جوببلی گیٹ تک چھوڑنے کی پیشکش کی اور جب ان کی سہیلیوں نے انکار کیا تو کارسوار نوجوانوں قدرے خشونت سے انتہائی غیر اخلاقی زبان استعمال کی اور دھمکی بھی دی جس پر ان کی سہیلیوں نے زور زور سے چیخنا شروع کردیا تو کارسوار فرار ہوگئے۔انہوں نے بتایا کہ اندھیرے کے باعث ہر وقت انجانا سے خوف لاحق رہتا ہے اگر گھمبوں کے بلب آن ہوجائیں تو یقینی طور پر تھوڑا تحفظ کا احساس رہے گا۔ شعبہ عمرانیات کے طالبعلم نے بتایا کہ وہ اپنے دوست کے ہمراہ 8 بجے شعبہ سے مسکن گیٹ کی طرف جارہے تھے کہ ایک موٹرسائیکل پر سوار دو لڑکوں نے ان سے موبائل چھینا اور آرام سے فرار ہوگئے۔

انہوں نے بتایا کہ چھینے والوں کے ساتھ ایک عدد اضافی موٹرسائیکل پر دو لڑکے سوار تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بغیر ہیلمٹ کے تھے لیکن اگر وہ دوبارہ سامنے آجائیں تو شناخت نہیں کرسکیں کیونکہ جس وقت انہوں نے واردات کی تب ہم مسکن گیٹ اور آئی بی اے کے درمیانی حصے میں تھے اور وہاں بہت اندھیرا تھا۔

جامعہ کی سیکیورٹی سے متعلق سوال کے جواب میں ایک استاد نے بتایا کہ تدریسی ادارے کے پاس اتنی سیکیورٹی نہیں کہ وہ پولیس کی طرح گشت کریں لیکن پھر مرکزی شاہراہ کے آغاز یا اختتام پر گارڈز ہوتے ہیں۔

ایڈمن کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ جامعہ کے ہر شعبہ کے لیے ایک گارڈ کی تعتیانی ہوتی ہے لیکن ان کی موجودگی محض خانہ پوری ہوتی ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے انکشاف کیا کہ حال ہی میں شعبہ ابلاغ میں نصب جنریٹر اور ریڈیو کے لیے بچھائی گئی بجلی کی تار کاٹ کر چوری کرلی گئی ہیں۔

انہوں نے طلبہ و طالبات پر زور دیا کہ وہ کسی بھی ناشگوار واقعے پر اپنی شکایت جامعہ کے محکمہ سیکیورٹی میں ضرور کرائیں تاکہ متعلقہ حکام بہتر حکمت عملی واضع کرسکیں۔ انہوں نے مایوسی کا اظہار کیا کہ خصوصاً طالبات شکایت اندراج کرانے میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی ہیں اور محض بری بلا ٹل جانے پر ہی عافیت جانتی ہیں۔ استاد نے کہا کہ طالبات کا غیرسنجیدہ رویہ غیر محسوس طریقے سے برائی کی حوصلہ افزائی کا باعث بن رہا ہے۔