گرین لائن بس منصوبے کا تعمیراتی سامان چوری اور برباد ہونے کا انکشاف

881

کراچی(رپورٹ:منیر عقیل انصاری) اربوں روپے کی لاگت سے بنے کراچی کی گرین لائن منصوبے کو برباد کیا جارہا ہے۔ گرین لائن بس اسٹیشنز کی تعمیر کے لیے منگوائے گئے الیکٹرونک سامان کی چوری ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔22 بس اسٹیشنوں کی تعمیر کے لیے منگوایا گیا سامان جس میں پاور کیبل،موٹریں، ایلومینیم شیٹس،کرسیاں، ایلیویٹرز، دھاتی چادریں چوری ہونے کی وارداتوں میں اضافہ ترقیاتی کاموں میں سست روی کا سبب بن گیاہے۔کراچی میں گرین لائن بس منصوبہ آئے روز کسی نہ کسی آزمائش کا شکار ہے، پہلے بسیں چلانے کے معاملے پر وفاق اور حکومت سندھ کے مابین اختلافات کے باعث منصوبہ تاخیر کا شکار ہوا ہے تو اب گرین لائن بس منصوبے کے اسٹیشنوں کی تعمیر کے لیے منگوایا گیا سامان چوری ہونے کی وارداتیں شروع ہو گئی ہیں جس کی وجہ سے منصوبہ رواں سال ستمبر میں بھی مکمل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔گرین لائن بس منصوبے کے اسٹیشنوں کی تعمیر کے لیے منگوایا گیا قیمتی الیکٹرونک سامان، پروجیکٹ کے قیمتی پرزے، مشینری اور ایلیوٹرز سے متعلق اہم اشیاء سائٹ سے چوری کر لی گئی ہیں۔گرین لائن منصوبہ، ناگن چورنگی کے اسٹیشن پر موجود سیکورٹی گارڈ نے جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کراچی کی گرین لائن منصوبے کے متعدد اسٹیشنز پر اسکیلیٹرز کھلے ہونے کی وجہ سے گرد و غبار اور کچرے کی وجہ سے اٹ چکے ہیں، لوہے زنگ آلود ہوگئے ہے۔بارشوں کی وجہ سے بعض مقامات سے سڑکیں خراب ہوچکی ہیں، جہاں پل ہیں وہاں نیچے کچرے کے ڈھیر ہیں اور غیر قانونی قابضین اپنی آبادی قائم کرچکے ہیں،لفٹ کے فریم کے لوہے کاٹے جارہے ہیں، اسٹیشن کی کوئی دیکھ بھال نہیں کی جارہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ بہت سے اسٹیشن کے دروازوں کے اوپر پرندوں نے اپنا مسکن بنا لیا ہے،بعض اسٹیشن کے دروازوں کے شیشے توڑ دیے گئے ان کے پروفائل خراب ہوگئی ہیں، بس اسٹیشن کو دھوبی گھاٹ بنایا ہوا ہے کپڑے دھو کر سو کھائے جارہے ہیں، اسٹیشن کی مانیٹرنگ کے لیے کوئی کیمرے نصب نہیں کیا گیا ہے۔اسی طرح یوپی موڑ پر واقع ادھورا بس اسٹیشن پتھارے داروں کے روزگار کا مسکن زیادہ معلوم ہوتا ہے جبکہ پل کے کونے منصوبے کے آغاز سے پہلے ہی ٹوٹنے لگے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک سیڑھی بھی ٹوٹ کر منصوبے کی زبوں حالی کی داستان سنا رہی ہے۔شہر میں بنائے گئے دیگر بس اسٹیشن کی حالت زار بھی اس سے مختلف نظر نہیں آتی ہے۔جبکہ کچھ بس اسٹیشن ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔ اسٹیشنز کی راہداری میں تعفن، کچرا اور غلاظت بھی جا بجا دیکھی جاسکتی ہے۔اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک گرین لائن منصوبہ کراچی میں آمد و رفت کے مسائل حل نہیں کر سکتا ہے۔ اس کے لیے بی آر ٹی کے تمام منصوبوں کو کامیابی سے مکمل کرنا ہوگا۔واضح رہے کہ فروری 2016 میں سابق وزریر اعظم نوازشریف نے کراچی میں گرین لائن ریپڈ بس سروس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا جسے دو سال میں مکمل ہونا تھا لیکن ساڑھے چار سال گزر جانے کے باوجود بھی منصوبہ مکمل ہونے کے دور دور تک آثار دکھائی نہیں دیتے ہیں۔سال 2018 میں وفاقی حکومت تبدیل ہونے کے بعد جہاں کئی منصوبے کھٹائی میں پڑگئے وہیں گرین لائن منصوبہ بھی تاحال لٹک گیا ہے۔ کراچی کے شہری اب بھی منتظر ہیں کہ گرین لائن منصوبے پر بسیں کب چلیں گی اور شہریوں کو باعزت سفری سہولت کب میسر آئے گی۔گرین لائن منصوبوں پر کام کرنے کے لیے کراچی انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ قائم کی گئی تھی، جس کا نام بعد میں تبدیل کرکے سندھ انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ رکھ دیا گیا تھا۔کراچی گرین لائن منصوبے کہ حوالے سے موقف جاننے کے لیے سندھ انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ(ایس آئی ڈی سی ایل) کے چیف انجینئر بریگیڈئیر(ر)سہیل ابرار سے متعدد بار ان کے نمبر پررابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم انہوں نے جسارت سے کی جانے والی فون کا ل اٹینڈ نہیں کی ہے۔