بس، ٹی وی کیمرے ہٹا دیں

292

جس زمانے میں آج کے وزیراعظم عمران خان پارلیمنٹ کے سامنے 126 دن کا تاریخی دھرنا دیے بیٹھے تھے اس وقت روزانہ اسمبلی میں اور اسمبلی کے باہر تماشا لگتا تھا۔ پہلے تو سارا تماشا باہر والا دکھایا جاتا اور پھر اسمبلی کے اندر کا تماشا شروع ہوا تو ٹی وی اسکرین درمیان سے آدھی آدھی کر کے ایک جانب حکومت کی اسمبلی کی کارروائی اور دوسری جانب اپوزیشن کے جلسے دکھا کر پاکستانی میڈیا نے کوریج میں توازن کا عظیم الشان کارنامہ کر دکھایا۔ لیکن یہ کوئی کارنامہ نہیں تھا، یہ ایک ایجنڈا تھا جس کے تحت دونوں طرف کے سیاستدان ایک دوسرے کو برا کہہ رہے تھے اور دونوں ٹھیک کہہ رہے تھے۔ یہ سب کچھ ٹی وی پر دکھانے کا مقصد بھی سیاستدانوں کا چہرہ خراب کر کے پیش کرنا ہی تھا۔ اس میں ہمیشہ کامیابی ہوئی ہے۔ قومی اسمبلی میں حالیہ بجٹ اجلاس میں جو ہڑبونگ ہوئی ہے اس کا مقصد بھی یہی تھا کہ سیاستدانوں کا چہرہ خراب کر کے پیش کیا جائے۔ چنانچہ ادھر ٹی وی اسکرین پر قومی اسمبلی کی ہڑبونگ اور نعرے بازی کی ویڈیو چلی ادھر اس پر تبصرے، ٹی وی ٹاک شوز اور ماہرانہ تجزیے شروع ہوئے کہ یہ حال یہ غیر سنجیدگی ہے ان سیاستدانوں کو اتنا بھی نہیں پتا کہ بجٹ کیا ہوتا ہے اس کے بارے میں کیا رویہ رکھنا چاہیے یہ لوگ غیر سنجیدہ ہیں۔ اس کے بعد بعض قومی ہیروز کرکٹرز وغیرہ سے بیان دلوائے جاتے ہیں کہ ہمیں افسوس ہے ایسے لوگ قوم پر مسلط ہیں لیکن یہاں بار بار سیاستدان کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے ناکہ ذہنوں میں یہ بات پختہ ہو جائے کہ سیاستدان ہی دراصل اس ملک کی ساری تباہی کے ذمے دار ہیں۔ یہ بات اس اعتبار سے تو درست ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ اسمبلی میں سیاستدان ہی کر رہے ہیں حکومت میں سیاستدان ہی ہیں اور ساری نالائقیاں وہی کر رہے ہیں۔ لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ ان نااہل اور کٹھ پتلیوں کو اسمبلی میں لا بٹھانے والے ان کے پیچھے ہوتے ہیں آج کل انہیں سلیکٹرز کہا جاتا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سلیکٹرز ایسی سلیکشن پر شرمندہ ہو رہے ہوں گے۔ لیکن ایسا بالکل بھی نہیں ہے یہ سلیکٹرز ایسی ہی سلیکشن چاہتے تھے۔ تا کہ بدنامی سیاستدانوں کے حصے میں آئے اور وہ پیچھے بیٹھے مزے کرتے رہیں۔ یہی سلیکٹرز عوام کے حقیقی اور سنجیدہ نمائندوں کو اسمبلیوں تک پہنچنے نہیں دیتے۔ ایسے قوانین بنائے جاتے ہیں کہ غریب اور عام آدمی تو الیکشن میں ہی حصہ نہ لے سکے۔ پورا الیکشن نظام سرمایہ داروں اور وزیروں کے لیے بنایا گیا ہے۔ میڈیا کو استعمال کر کے مصنوعی قیادت سامنے لائی جاتی ہے اسی کے خواب دکھائے جاتے ہیں اور اسی کو اقتدار تک پہنچایا جاتا ہے لیکن اب اس جوڑ توڑ کے نظام سے بننے والی اسمبلیوں کے سارے کھیل میں سڑاند پیدا ہو گئی ہے یہ اس قدر تعفن ہے کہ اسمبلی میں ٹاک شو میں، عام گفتگو میں ہر وقت یہ لوگ تعفن پھیلاتے رہتے ہیں۔ کبھی گالیاں کبھی تھپڑ کبھی بے ہودہ جملے بازیاں حتیٰ کہ اسمبلی کے اجلاس کے دوران فحش اشارے۔
گزشتہ کئی دنوں سے اسمبلی میں جو کچھ ہو رہا ہے اس میں اور پی ٹی آئی کے دھرنے کے دوران ہونے والے واقعات میں کوئی فرق نہیں ہے اس وقت بھی ہم نے تجویز دی تھی کہ صرف ایک کام کرنے سے سارا ابال بیٹھ جائے گا۔ یعنی ٹی وی کیمرے ہٹا دیے جائیں۔ یہ جو ڈرامے کیے جاتے ہیں سیٹیاں باجے جملے بازیاں پھبتیاں۔ یہ سب ٹی وی کیمرے کی خاطر ہوتے ہیں۔ اسمبلی میں تین سو سے زیادہ ارکان ہوتے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن سے دس بارہ ارکان سے زیادہ کو ٹی وی پر موقع ہی نہیں ملتا۔ تو اسمبلی میں اچھل کود تھپڑ گالی جھگڑا ان کو ٹی وی اسکرین پر لانے کا موقع دیتا ہے۔ جب کبھی اسمبلی اور سیاستدانوں کی ایسی شکل پیش کی جانے لگے تو یہ سمجھ لیا جانا چاہیے کہ کوئی کارروائی ہونے والی ہے۔ پہلے سے زیادہ تھکے ہوئے اور کچرا لوگوں کو لایا جائے گا یا خود سلیکٹرز ہی تشریف لائیں گے اور ان کی زبان پر یہی الفاظ ہوں گے۔ پارلیمنٹ کے تقدس کو پامال کر دیا گیا تھا۔ غیر سنجیدگی انتہا پر تھی، بجٹ جیسے سنجیدہ مسئلے کو تماشا بناکر رکھ دیا گیا تھا۔ شائستگی اور شرافت کو بھلا دیا گیا تھا۔ پاکستان جمہوری اصولوں کے لیے بنا تھا لیکن جمہوریت کے نام پر ایسے ڈراموں سے بہتر ہے کہ یہ ڈراما بند کیا جائے۔ ہم بس کچھ ہی عرصے میں صورت حال بہتر کر کے چلے جائیں گے اور پھر صورت حال مزید بدتر کرنے کا انتظام کر کے۔ ان ہی غیر شائستہ، غیر سنجیدہ، پارلیمنٹ کے تقدس کو پامال کرنے والوں پر مشتمل کوئی نیا ٹولہ تیار کر کے قوم کو تحفے میں دے دیے جائیں گے۔ ایسا ایک دو بار نہیں بار بار ہوا ہے اور اس بار تو جو کچھ ہوا ہے وہ ایسا ہوا ہے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی۔ بس اس لطیفے سے بات سمجھ میں آجائے گی کہ ایک دفتر میں سرکاری افسر نئے نئے تشریف لائے انہوں نے دیکھا پورے دفتر میں کچرا کاٹھ کباڑ بے ترتیبی ہے۔ آتے ہی سارے عملے اور افسران کو جمع کیا اور کہا کہ دو دن میں یہ سب صاف چاہیے۔ عملہ سرکاری تھا اس نے کچھ حیلے کیے اور ایک ہفتے کی مہلت لے لی۔ ایک ہفتے بعد افسر صاحب آئے تو دیکھا کہ دفتر میں خود سے صفائی ہے۔ چاروں طرف الماریوں میں فائلیں ترتیب سے لگی ہوئی ہیں۔ انہوں نے دریافت کیا کہ یہ کیسی فائلیں ہیں میں نے تو مکمل صفائی کا کہا تھا۔ تو سلیکٹرز کی طرف سے جواب ملا کہ ہم نے احتیاطاً فوٹو کاپی کرالی تھی شاید کام آجائے۔ چنانچہ اس مرتبہ سلیکٹرز نے جنرل ضیا الحق، بھٹو، بے نظیر، نواز شریف، جنرل پرویز مشرف کے زمانے کا سارا کچرا جمع کر کے ایک پارٹی بنا دی اور وہ پارٹی صبح و شام پچھلی حکومتوں کی بدعنوانی، چوری اور نااہلی کا رونا روتی رہتی ہے اور پچھلی حکومتوں کا سارا کچرا اس حکومت اور اسمبلی میں ہے۔ اسے کہتے ہیں کاٹھ کباڑ کی فوٹو کاپی۔ کچرے سے بدبو ہی اٹھے گی کرپٹ حکومتوں کے کرپٹ لوگوں سے حج عمرے روزے نماز اور ایمانداری کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ ملک کے عوام کے حقیقی نمائندوں اور ایوان اقتدار کے درمیان ایک مضبوط دیوار کھڑی کر دی گئی ہے۔ جواس سے ٹکرائے گا جمہوریت کا دشمن ملک دشمن اور دہشت گرد کہلائے گا۔ جو سلیکٹرز پر انگلی اٹھائے گا وہ غدار ٹھیرے گا۔ تو واپس آتے ہیں ایسے ڈراموں کو بند کرنے کی تجویز کی طرف۔ آپ نے کبھی کسی سرکاری سیکورٹی ادارے کے اجلاس کی اس طرح ٹی وی کوریج دیکھی ہے۔ وہاں اختلاف ہوتا ہو گا اپنا اپنا طریقہ ہے لیکن چونکہ یہاں ٹی وی کیمرا ہے اس لیے اچھل کود اور تماشے زیادہ ہیں۔ باقی رہا مسئلے کا حل تو وہ کچرے کی صفائی ہے۔ صرف صفایا… اور کوئی ری سائکلنگ بھی نہیں۔ صرف صفایا۔ ہاں اس ہنگامے کو بہت سے لوگ شرمندہ ہو کر دیکھ رہے ہیں کہ دیکھو ہمارے منتخب ارکان کیسے ہیں۔ نہیں… یہ عوام کی تصویر نہیں ہے۔ یہ ان لوگوں کے لیے آئنہ ہے جو ایسے لوگوں کو لاتے ہیں اس میں وہی نظر آرہے ہیں۔