جمہوریت کی نمائش

572

 

بجٹ اعداد وشمار کا ایک گورکھ دھندا ہے جو حکومت ہر مالی سال کے اختتام پر قوم کے سامنے پیش کرتی اور اپنے حامی و مخالفین سے داد و تنقید سمیٹتی ہے۔ اگر ملک میں قومی اسمبلی موجود ہو اور سول حکومت کی فرماں روائی ہو تو وزیرخزانہ یہ بجٹ اسمبلی کے ایوان میں پیش کرتے ہیں انہیں اپوزیشن کی جانب سے ہنگامہ آرائی کا بھی سامنا ہوتا ہے لیکن وہ کسی نہ کسی طرح اپنی بجٹ تقریر مکمل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ملک میں فوجی حکومت ہو تو وزیر خزانہ کی تقریر براہ راست ٹی وی چینلوں سے نشر ہوتی ہے اور حکومت کسی بحث مباحثے کے بغیر اس کی منظوری دے دیتی ہے۔ اب کہا جاتا ہے کہ براہ راست فوجی حکومتوں کا دور گزر گیا، بالواسطہ حکمرانی کا زمانہ ہے اس لیے سول حکومت کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلائی جاتی ہے۔ سول حکمرانی جمہوریت کا ایک روپ ہے جو اپوزیشن کے بغیر مکمل نہیں ہوتا، جہاں جمہوریت ہوگی وہاں اپوزیشن بھی ہوگی۔ اپوزیشن حکومت کے ہر کام میں کیڑے نکالتی ہے اس کی کوشش ہوتی ہے کہ حکومت کو چلنے نہ دیا جائے اور حکومت بے بس ہو کر گھٹنے ٹیک دے، پھر نئے سرے سے انتخابات ہوں اور آج کی اپوزیشن کل کی حکومت بن جائے۔ جن ملکوں میں نمائشی جمہوریت ہے وہاں یہ جمہوری تماشا جاری رہتا ہے اور اسے قومی معمولات کا درجہ دیا جاتا ہے۔
پاکستان بھی بظاہر ایک جمہوری ملک ہے اس لیے یہاں بھی یہ کھیل تواتر سے جاری ہے۔ اگرچہ کہا یہ جاتا ہے کہ یہ سب کٹھ پتلیوں کا کھیل ہے۔ جمہوری کٹھ پتلیوں کی ڈور ہلانے والی خفیہ قوتیں کچھ اور ہیں جو جب چاہیں بساط اُلٹ سکتی ہیں۔ پاکستان پر فوجی حکومتوں کو چھوڑ کر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی یکے بعد دیگرے حکومت کرتی رہی ہیں۔ جب ان دونوں جماعتوں سے ملک نہ سنبھالا گیا اور کرپشن کے ناسور نے وطن عزیز کا تیا پانچا کردیا تو ایک تیسری پارٹی تحریک انصاف کو اقتدار کے تخت پر بٹھایا گیا جس کے لیڈر کا بیانیہ ہی یہ ہے کہ سب چور ہیں، لوٹ کر کھا گئے، نہیں چھوڑوں گا، این آر او نہیں دوں گا‘‘۔ یہ بیانیے اپنی جگہ، اس لیڈر کو کچھ کرکے بھی دکھانا چاہیے تھا تا کہ اس کا اعتبار قائم ہوتا اور عوام سُکھ کا سانس لیتے لیکن ہوا یہ کہ اس لیڈر کے گرد بھی انہی لوگوں نے گھیرا ڈال لیا جو پچھلی حکومتوں کی بدنامی کا باعث بنے تھے اور اس سے بھی وہی سارے کام کرائے گئے جن سے نجات کا دعویٰ لے کر یہ اقتدار میں آیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اب سرکاری اداروں میں کرپشن کا ریٹ پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گیا ہے اور عام آدمی کے لیے رشوت دے کر بھی اپنا جائز کام کرانا آسان نہیں رہا۔
اب اس حکومت کا تیسرا بجٹ تیسرے وزیر خزانہ نے پیش کیا ہے جس کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کی معیشت سکتے سے نکل آئی ہے، حالاں کہ یہی صاحب ابھی چند ہفتے پہلے تک حکومت کی معاشی پالیسی پر کڑی تنقید کررہے تھے اور کسی صورت بھی وزارت خزانہ کی ذمے داری اٹھانے کو تیار نہ تھے، پھر اندر خانہ کیا مفاہمت ہوئی کہ انہیں سب کچھ ہرا ہرا نظر آنے لگا۔ ملک کی شرحِ نمو بھی اچانک ڈبل ہوگئی اور آمدنی کے وسائل بھی حیرت انگیز طور پر بڑھ گئے۔ بجٹ تقریر کے بعد اپوزیشن لیڈر شہباز شریف جوابی خطاب کے لیے کھڑے ہوئے تو ہنگامہ برپا کردیا گیا۔ اپوزیشن اور حکومت دونوں طرف سے ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملے کیے گئے اور ایوان میں خواتین کی موجودگی کے باوجود مغلظات بکنے میں کوئی اور رعایت نہ کی گئی۔ آخر اجلاس ملتوی کردیا گیا، دوسرے دن پھر اپوزیشن لیڈر نے خطاب کرنا چاہا تو ہنگامہ آرائی شروع ہوگئی، ارکان ایک دوسرے کے ساتھ گتھم گتھا ہوگئے اور وہ کچھ ہوا جو سربازار بدمعاش بھی نہیں کرتے۔ اب کوئی چیز چھپی نہیں رہتی جو کچھ منتخب ایوان میں ہوتا ہے وہ پورے ملک بلکہ پوری دنیا میں ٹیلی کاسٹ ہوجاتا ہے اور بیرون ملک مقیم وہ پاکستانی بھی دیکھ لیتے ہیں جنہیں تحریک انصاف کے ووٹر کہا جاتا ہے۔ جو پاکستانی مغربی ملکوں میں رہتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ جمہوریت کیا ہوتی ہے اور اپوزیشن کسے کہتے ہیں۔ وہاں اپوزیشن لیڈر منتخب ایوان میں بولتا ہے تو سناٹا چھا جاتا ہے کسی حکومتی رکن کی یہ مجال نہیں ہوتی کہ وہ اس کی تقریر میں مداخلت کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ملکوں میں جمہوریت پھول پھل رہی ہے، عوام کی حقیقی منتخب حکومتیں کام کررہی ہیں جو عوام کے سامنے جوابدہ ہیں۔ اگر وہ عوام کی توقعات پر پورا نہیں اُترتیں تو عوام انتخابات کے ذریعے بڑی آسانی سے انہیں تبدیل کردیتے ہیں۔ کوئی دھاندلی کا شور نہیں مچتا۔ اس کے برعکس پاکستان جیسے ترقی پزیر ملکوں میں جمہوریت کے نام پر ’’جمہوری تماشا‘‘ ہورہا ہے۔ اندازہ کیجیے کہ قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس ہے، وزیر خزانہ اپنی طویل بجٹ تقریر فرما چکے ہیں اس پر اپنے ردعمل کا اظہار کرنا اپوزیشن لیڈر کا حق ہے لیکن اسے بولنے ہی نہیں دیا جاتا۔ اس کی نشست کا گھیرائو کرلیا جاتا ہے، اس پر بجٹ کی کتابیں کھینچ کر ماری جاتی ہیں، اس کا مائیک بند کردیا جاتا ہے، اسے مغلظات سنائی جاتی ہیں، پھر پورا ایوان ہنگامے کی لپیٹ میں آجاتا ہے اور اپوزیشن و حکومتی ارکان گتھم گتھا ہوجاتے ہیں۔ کیا اس ہنگامے کے باوجود اپوزیشن لیڈر کو اپنی بات کہنے اور اس بات کو نشر ہونے سے روکا جاسکا؟ اس نے بجٹ کو جھوٹ کا پلندا قرار دیا اور اس میں دیے گئے اعداد وشمار کو جعل سازی سے تعبیر کیا۔ اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ ٹیکس فری بجٹ پیش کرنے کا دعویٰ بھی جھوٹ ہے، اس میں ساڑھے تین سو ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں جس سے مہنگائی میں چالیس فی صد اضافہ ہوگا۔ بلاول زرداری کا دعویٰ ہے کہ بجٹ میں سات سو ارب کے نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں۔ کیا وزیر خزانہ کے پاس ان باتوں کا کوئی جواب تھا؟ سب سے اہم بات یہ کہ قومی اسمبلی میں جو کچھ ہوا کیا وزیراعظم عمران خان کی مرضی کے بغیر ہوسکتا تھا؟ وہ جس جمہوریت کی نمائش کررہے ہیں وہ آخر کب تک چلے گی؟