اصولِ معاشرت

542

آخری حصہ

فخر کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ میں تم سے آگے ہوں اور دوسرا یہ کہ تم مجھ سے پیچھے ہو۔ ان دو باتوں میں فرق ہے۔ ’میں تم سے آگے ہوں‘ میں خود پر فخر کا اظہار تو ہے مگر شاید دوسرے کی تحقیر نہیں ہے، اور ’تم مجھ سے پیچھے ہو‘ میں فخر بھی ہے اور دوسرے کی تحقیر بھی۔ جو فخر ہر حال میں منع ہے وہ یہی ہے جس میں دوسرے کی تحقیر لازم ہوجائے۔ فخر کا سب سے بڑا سبب تو یہی ہیکہ آدمی کی طبیعت بندگی سے خالی ہے لیکن اس کا فوری نقصان یہ ہے کہ اس سے معاشرت کا توازن بگڑ جاتا ہے اور معاشرے میں حفظ ِ مراتب کا حقیقی نظام برقرار نہیں رہتا۔ خود پسندی معاشرے کی موت کا وائرس ہے۔ خود پسند افراد سے بننے والا معاشرہ فنا ہونے سے بچ نہیں سکتا۔ یہ وہ مرض ہے جو ہزاروں برس میں تعمیر ہونے والے معاشرتی اسٹرکچرز کو دنوں میں گرا دیتا ہے۔ خود پسندی اصل میں خود پرستی ہے۔ خود پسند آدمی از روے حال یہ نہیں مانتا کہ وہ اپنی جن چیزوں پر اکڑ رہا ہے وہ اس کی نہیں ہیں، اللہ کی دی ہوئی ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ بندہ اگر یہ سمجھ لے تو خود پسندی سے بچ جائے گا کہ اپنی جن چیزوں پر وہ فخر کر رہا ہے وہ سب کی سب اللہ کی ہیں اور اللہ ہی کی دی ہوئی ہیں، میں ان میں سے کسی چیز کا مستحق بھی نہیں ہوں۔
حسن ِ اخلاق اور حسن ِ معاشرت کا تیسرا اصول یہ ہے کہ ’سرکشی نہ کرو‘۔ ظاہر ہے جس میں تواضع نہیں ہوگی اور جو خود پر فخر کرے گا وہ شخص سرکشی ضرور اختیار کرے گا، یعنی اس کا مزاج سرکشی والا ہوگا۔ تواضع سے اچھا فرد پیدا ہوتا ہے، خود پر فخر نہ کرنے سے اچھا معاشرہ بنتا ہے اور سرکشی نہ ہونے سے اچھی ریاست تشکیل پاتی ہے۔ گو کہ سرکش میں اللہ کے احکام سے سرکشی کا پہلو غالب ہے تاہم اس میں نظمِ ریاست سے سرکشی کا عنصر بھی داخل ہے۔ ہم فی الوقت اسی پر فوکس کر رہے ہیں۔ پھر سمجھ لیجیے کہ ’سرکشی نہ کرو‘ کے حکم کا اصلی مطلب یہ ہے کہ اللہ کے بندے بن کر رہو اور اپنی انفرادیت اور اجتماعیت دونوں کو بندگی کی اساس پر استوار کرو۔ اس اصول کے اطلاق کی ایک عملی صورت یہ ہے کہ کسی ریاست کے شہری کی حیثیت میں بھی نظم ِ ریاست کی پابندی کرو اور اللہ کے حکم کے بغیر بغاوت اور تصادم کا چلن اختیار نہ کرو۔ تو واضح ہے ناں کہ جس طرح تواضع اور انکسار کی بنیاد بندگی پر ہے اسی طرح نظمِ ریاست کی اطاعت کی اساس بھی بندگی پر ہے۔ بندگی سے کٹ کر ان چیزوں کے کوئی معنی نہیں۔ اس بنیادی اصول کو حتماً پیش نظر رکھیں پھر دیکھیں کہ رسول اللہؐ یہ ارشاد فرما رہے ہیں کہ ریاست میں سرکشی کا ماحول نہ پیدا کرو، معاشرے کو خود پسندی کے مرض سے بچاؤ اور اپنے باطن کو تواضع سے پروان چڑھاؤ۔ جن احکام اور جن اقدار پر دین کی سند اور تصدیق کے ساتھ ہمارا اجتماعی وجود چل رہا ہے، اْن احکام، اصول و اقدار کو چیلنج نہ کرو اور ان کے مقابلے میں سرکشی کا رویہ اختیار نہ کرو۔
دعا کرنی چاہیے کہ اللہ ہمیں ہمارے دین کے مزاج کو اپنے اندر جذب کر لینے کی توفیق دے اور اس دین کے تمام مقاصد کو حاصل کرنے کا جذبہ اور ہمت عطا فرمائے، اور اللہ ہمیں بندگی کی تکمیل کے آسان راستے پر چلائے اور ہمیں اپنے دین کے اصلی مقاصد کی طرف سہولت اور قبولیت کے ساتھ یکسو رکھے۔ ہمیں بہت گڑگڑ اکر سنجیدگی سے اور تسلسل کے ساتھ دعا کرنی چاہیے کہ اے اللہ! ہمیں ایسا بنا دے کہ ہمارا ہر تعلق تیرے ہی تعلق سے پیدا ہو اور تیرے ہی تعلق پر تمام ہو۔ آمین۔
یہاں ایک سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اگر ریاست اللہ کی باغی ہوجائے تو اس کے خلاف کھڑا ہونا فرض ِ عین ہے۔ البتہ اس میں محض جذبات کو راہنما نہیں بنانا چاہیے بلکہ حکمت و فراست سے کام لینا چاہیے۔ سرکشی ایک منفی لفظ ہے، اس میں اللہ سے سرکشی کا پہلو بھی شامل ہے۔ سرکشی ہمیشہ حق سے ہوتی ہے، حق کے لیے نہیں۔ حق کے لیے اٹھنا تو سر افگندگی ہے، سرکشی نہیں۔ سرافگندگی کا مطلب سمجھتے ہیں ناں! سر جھکانا، اللہ کے آگے سر ڈال دینا۔ اس لیے مجاہد فی سبیل اللہ کا اللہ کے دشمنوں کے آگے سر اٹھانا از روے حال اللہ کے حضور میں کامل ترین سجدہ کرنے کا عمل ہے۔ مجاہد کا اٹھا ہوا سر سجدے کی بہترین حالت میں ہوتا ہے۔ یہ بات آج کے مہم جْو نام نہاد جہادی سمجھ لیتے تو دنیا بھر میں اسلام کی رسوائی کا سبب نہ بنتے۔