بلدیاتی ادارے اور جمہوریت کا استحکام

296

ایک اخباری اطلاع کے مطابق خیبر پختون خوا حکومت اور الیکشن کمیشن نے صوبے میں رواں برس ستمبر کے مہینے میں بلدیاتی انتخابات کرانے پر اتفاق کیا ہے۔ یہ اتفاق اسلام آباد میں چیف الیکشن کمشنر کی زیر صدارت چاروں صوبوں اور اسلام آباد کے بلدیات سے متعلق اعلیٰ حکام کے ایک خصوصی اجلاس میں کیا گیا ہے۔ یہ اطلاعات اس خبر کے پس منظر میں سامنے آئی ہیں کہ صوبائی دارالحکومت پشاور میں آئندہ بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں سات مقامی حکومتیں تشکیل دی جائیں گی جن میں ایک سٹی لوکل گورنمنٹ ہوگی جسے کیپٹل میٹرو پولٹین گورنمنٹ کا نام دیا گیا ہے جبکہ اس کے علاوہ ضلع پشاور میں دیہی علاقوں پر مشتمل چھ تحصیل لوکل گورنمنٹ (مقامی حکومتیں) بنائی جائیںگی۔ صوبے میں بلدیاتی اداروں کے قیام کے موضوع پر ایک طویل وقفے کے بعد دوبارہ بحث ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب ایک جانب حکومت نے رواں سال کے اختتام تک چاروں صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کا عندیہ دیا ہے جبکہ دوسری طرف صوبائی حکومت بھی پچھلے چند ماہ سے مسلسل یہ تاثر دے رہی ہے کہ وہ نہ صرف بلدیاتی انتخابات کرانے کے لیے تیار ہے بلکہ اس نے اس ضمن میں پوری تیاری بھی کر رکھی ہے۔ اس طرح الیکشن کمیشن بھی متعدد بار اس بات کا اظہار کر چکا ہے کہ وہ بلدیاتی انتخابات کرانے کے لیے تیار ہے البتہ اس ضمن میں صوبائی حکومتیں وہ گرمجوشی نہیں دکھا رہی ہیں جو بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لیے ضروری ہے۔ یہ ساری بحث ایک ایسی جماعت کے عرصہ اقتدار میں ہورہی ہے جو نہ صرف شروع دن سے بلدیاتی نظام کے زبر دست حق میں رہی ہے بلکہ بلدیاتی اداروں کا قیام اس کے منشور کا ایک اہم اور بنیادی نکتہ بھی ہے۔ اسی طرح یہ حقیقت بھی کسی سے مخفی نہیں ہے کہ وزیر اعظم عمران خان بطور اپوزیشن لیڈر بلدیاتی اداروں کے قیام اور ان اداروں کو جمہوریت کے استحکام کے لیے جتنا ناگزیر اور ضروری قرار دیتے رہے ہیں اتنا شاید پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کسی بھی سیاسی راہنما اور کسی بھی سیاسی جماعت نے ان اداروں کے قیام پر زور نہیں دیا ہے۔
عمران خان کا بلدیاتی اداروں سے متعلق یہ موقف آج بھی اکثر لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہوگا جب وہ بڑے مدلل اور نپے تلے انداز میں بر طانیہ میں کارفرما مقامی حکومتوں کی اہمیت بیان کرتے ہوئے اسی نوع کا نظام پاکستان میں بھی رائج کرنے کی پر زور وکالت کرتے تھے۔ ان کی اس وکالت کے پیچھے جہاں برطانیہ کا مستحکم اور پائیدار مقامی حکومتوں کا نظام اور اس نظام سے عام افراد کو مختلف شعبوں میں ملنے والا ریلیف پاکستانی شہریوں کے لیے بھی متعارف کرانے کا جذبہ کار فرما تھا وہاں وہ اس نظام کے تحت قائم کرکٹ کے کائونٹی سسٹم کو بھی پاکستان میں کرکٹ کے فروغ کے لیے ایک ضروری عنصر سمجھتے تھے لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ کے مصداق وفاق میں برسر اقتدار رہتے ہوئے پچھلی تین سال اور خیبر پختون خوا میں گزشتہ آٹھ سالہ تسلسل کے باوجود خان صاحب نہ تو یہاں کرکٹ کے فرسودہ نظام میں کوئی انقلابی تبدیلی لا سکے ہیں اور نہ ہی جمہوریت کی نرسری قرار دیے جانے والے بلدیاتی نظام کے نفاذ لیے کوئی قابل ذکر قدم اٹھایا جا سکا ہے۔ پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت میں خدا خدا کرکے ہونے والے بلدیاتی انتخابات اور اس کے نتیجے میں بننے والے بلدیاتی اداروں کی میعاد کو ختم ہوئے دو سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے لیکن حکومت کو بلدیاتی اداروں کے قیام کی دوبارہ توفیق تا حال نصیب نہیں ہو سکی ہے۔
ہمارے ہاں بلدیاتی اداروں کے قیام میں منتخب جمہوری حکومتوں اور برسر اقتدار سیاسی جماعتوں کے بر عکس اکثر غیر منتخب آمرانہ حکومتیں پیش پیش رہی ہیں جن کی نمایاں مثالیں جنرل ایوب خان کا وضع کردہ بی ڈی سسٹم، جنرل ضیاء الحق کا مخصوص بلدیاتی نظام اور جنرل پرویز مشرف کا بنیادی مقامی حکومتوں کے بلدیاتی اداروں کے قیام کے رنگارنگ تجربات تھے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو اپنی جمہوری حکومتوں میں بلدیاتی انتخابات کے پاپڑ بیلنے سے ہمیشہ احتراض کی پالیسی پر گامزن رہے حتیٰ کہ محمد خان جونیجو اور یوسف رضا گیلانی جیسے بظاہر بے بس مگر جمہوری نظام کو تسلسل دینے والے وزرائے اعظم نے بھی بلدیاتی اداروں کے قیام کے جھنجھٹ میں پڑنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ایسا کیوں ہے اور منتخب حکمران بلدیاتی اداروں کے قیام سے اتنے خائف یا الرجک کیوں ہوتے ہیں اس بحث میں پڑنے کے بجائے بر سرزمین حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم وطن عزیز میں اکیسویں صدی سے ہم آہنگ جمہوری کلچر کا فروغ چاہتے ہیں تو اس کے لیے ہمیں نیک نیتی سے ملک بھر کے لیے ایک یکساں اور متفقہ بلدیاتی نظام کی داغ بیل ڈالنی ہوگی۔ دراصل افسوس اس بات کا ہے کہ ہم مغربی جمہوریت کے اثرات اور فوائد تو سمیٹنا چاہتے ہیں اور اس نظام کو 22 کروڑ عوام کے فلاح و بہبود کا ضامن تو سمجھتے ہیں لیکن اس نظام کی بنیاد سمجھے جانے والے بلدیاتی اداروںکے قیام کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کیکر کے درخت سے آموں کی آس لگائے لہٰذا اگر ہم اپنے شہریوں کو بعض بنیادی سہولتیں بلدیاتی اداروں کے قیام کے ذریعے ان کی دہلیز پر پہنچا کر انہیں جمہوریت کے پھل سے بہرہ مند کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے حکومت کو اپوزیشن جماعتوں کی مشاورت سے نہ صرف ایک متوازن بلدیاتی نظام تشکیل دینا ہوگا بلکہ عام انتخابات کی طرح بلدیاتی انتخابات کے بروقت انعقاد کو قانون سازی کے ذریعے آئین کا متفقہ حصہ بھی بنانا ہوگا۔