احساس زیاں جاتا رہا …!

313

قومی اسمبلی کی کارروائی خوش اسلوبی سے چلانے کے لیے حکومت اور حزب اختلاف میں مفاہمت ہو گئی ہے اور اسپیکر اسد قیصر کی کوششوں سے فریقین میں معاملات طے پا گئے ہیں۔ حکومت نے دس جون کو ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی صدارت میں ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران عجلت میں کی گئی قانون سازی کے جائزے اور حزب اختلاف کے تحفظات دور کرنے کے لیے بارہ رکنی کمیٹی بنانے پر آمادگی ظاہر کی ہے جب کہ حزب اختلاف نے ڈپٹی اسپیکر قاسم خاں سوری کے خلاف تحریک عدم اعتماد واپس لینے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس مفاہمت کے بعد قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف بجٹ پر بحث کے آغاز کے لیے اپنی تقریر چوتھے روز پر سکون ماحول میں مکمل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں،قبل ازیں تین روز تک قوم نے ملک کی مجلس شوریٰ کے ایوان زیریں، قومی اسمبلی میں بدترین بدکلامی، گالم گلوچ، ہنگامہ آرائی، غلیظ گالیوں کے تبادلہ کے وہ مناظر دیکھے کہ خدا کی پناہ۔ ارکان ایوان کے تقدس کا خیال رکھے بغیر بجٹ کی کتابیں اور جو کچھ ان کے ہاتھ آیا، اپنے مخالف ارکان کی جانب اچھا لتے رہے، خصوصی طور پر لائی گئی سیٹیاں بلند آواز میں بجا کر ایوان میں وہ ادھم مچایا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی، ارکان ایک دوسرے کو ننگی گالیاں دینے کے ساتھ ایک دوسرے پر حملہ آور بھی ہوتے رہے، اس ہنگامہ آرائی کے باعث بعض ارکان زخمی بھی ہوئے جب کہ اسپیکر اسد قیصر اس ساری صورت حال میں بے بسی کی تصویر بنے سب کچھ دیکھنے کے باوجود بار بار اجلاس ملتوی کرنے کے سوا کچھ نہ کر سکے۔ ایوان کو باوقار انداز میں چلانا یوں تو تمام ہی ارکان کی ذمہ داری ہے مگر اس ضمن میں حکومتی ارکان کا زیادہ فرض بنتا ہے کہ وہ ماحول کو خراب ہونے سے بچائیںاور عموماً سرکاری بنچوں پر بیٹھے ہوئے ارکان خصوصاً وزراء صاحبان اس کا خیال بھی رکھتے ہیں مگر اس اجلاس کے دوران گنگا الٹی بہتی رہی، سبب اس کا کچھ بھی ہو اور اس کے لیے جو چاہے جواز پیش کیا جائے مگر پوری قوم نے دیکھا کہ ہنگامہ آرائی کا آغاز قائد حزب اختلاف کی تقریر شروع ہوتے ہی نہ صرف یہ کہ حکومتی بنچوں کی طرف سے بلکہ خود وفاقی وزراء علی امین گنڈا پور اور شیریں مزاری کی جانب سے کیا گیا جب کہ بعض دیگر وزراء اور ارکان اسمبلی نے بھی اپنی اپنی ہمت کے مطابق حسب توفیق بڑھ چڑھ کر اس ہلڑ بازی اور زبان درازی میں حصہ ڈالا بدقسمتی سے حزب اختلاف کی جانب سے بھی کسی متانت، تحمل اور بردباری کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آ سکا اور ادھر سے بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دیا گیا۔ دکھ کا مقام یہ بھی ہے کہ اس دوران کسی نے بھی فریقین کو روکنے اور بیچ بچائو کرانے کی کوشش تک نہیں کی بلکہ دونوں جانب کے قائدین بھی جلتی پر تیل ڈالتے رہے، کسی نے بھی اس صورت حال کی مذمت اور اس پر اظہار افسوس کی ضرورت تک محسوس نہیں کی، مسلم لیگ (ن) کے لاہور سے رکن اور رہنما شیخ روحیل اصغر نے تو حد ہی کر دی اور نرالی منطق پیش کرتے ہوئے گالی دینے کو پنجاب کی ثقافت سے جوڑ دیا۔ قومی اسمبلی سے باہر ایک صحافی نے جب ان سے سوال کیا کہ گالی دینا کیا اچھی بات ہے؟ تو اس کے جواب میں کسی معذرت یا اظہار ندامت کی بجائے انہوں نے نہایت ڈھٹائی سے جواب دیا کہ یہ تو پنجاب کی ثقافت ہے۔ بعد ازاں ایک نجی ٹی وی چینل پر بھی انہوں نے اپنے موقف پر اصرار کیا اور معذرت سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں جس معاشرے میں رہتا ہوں، وہی کچھ کہہ دیا… اب نواز لیگ کے اس سینئر رہنماء کو کون سمجھائے کہ وہ مسلمانوں کے معاشرے میں رہتے ہیں جس میں گالی دینا محض بری بات ہی نہیں، گناہ بھی ہے… قومی اسمبلی جمہوری طرز حکومت میں عوام کا نمائندہ ادارہ ہوتا ہے جس سے متعلق یہ تصور کیا جاتا ہے کہ یہاںاہم قومی و بین الاقوامی امور پر سنجیدہ غور و فکر کے بعد ملک و قوم کے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے قانون سازی اور فیصلے کئے جاتے ہیں۔ یہ ادارہ قوم کی اخلاقیات اور اعلیٰ روایات کا آئینہ دار ہونا چاہئے کہ یہاں پہنچنے والے پوری قوم کے چنیدہ نمائندے اور ملک کی جمہوری اقدار کے امین ہوتے ہیں مگر بدقسمتی سے ہماری تاریخ میں ایسے مواقع کم ہی آئے ہیں جب ہمارے منتخب نمائندوں نے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے قومی اسمبلی کے مقتدر ایوان کو اس کے متعینہ مقاصد کے مطابق چلایا ہو۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران اس ایوان میں جو کچھ ہوا اور پھر جس طرح اس ساری گندگی اور غلاظت پر مٹی ڈال کر ’’مفاہمت‘‘ کے نام پر سب کچھ بھول جانے کا تاثر دیا گیا اس کی کسی بھی مہذب معاشرے سے تائید کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ یہ ایک ایسی سودے بازی ہے جس کے ذریعے معاشرے کی اخلاقی اقدار اور جمہوری روایات کو پامال کرنے کا سامان کیا گیا ہے۔ اسپیکر جناب اسد قیصر کی کوششوں سے فریقین کے مابین ہونے والی ’’مفاہمت‘‘ کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لیا جائے تو سب سے اہم بات جو سامنے آتے ہیں وہ یہ ہے کہ دونوں جانب سے کسی نے بھی اپنے رویے پر معذرت خواہی کی ضرورت محسوس کی ہے نہ کسی نے اس کی ضرورت کا احساس دلایا ہے، سوال یہ ہے کہ اگر ملک کے اعلیٰ ترین ایوان کے ارکان اپنے جرائم پر معمولی تادیبی کارروائی یا کم از کم معذرت تک پر آمادہ نہیں تو چھوٹے موٹے جرائم کے مرتکب لوگوں کو سزا کا تقاضا کیوں کر کیا جا سکتا ہے۔ اس صورت حال پر یہی عرض کیا جا سکتا ہے کہ ؎
وائے ناکامی متاع کاررواں جاتا رہا
کاررواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا