بلوچستان اسمبلی میدان جنگ 584 ارب کا بجٹ پیش

444
کوئٹہ: پولیس اور اپوزیشن اراکین اسمبلی اسمبلی کے گیٹ پر گتھم گھتاہے ‘ چھوٹی تصویر میں گیٹ ٹوٹنے کے بعد اراکین اسمبلی گرے ہوئے ہیں

کوئٹہ(نمائندہ جسارت) بجٹ اجلاس سے قبل بلوچستان اسمبلی میدان جنگ بن گئی۔حکومت نے آناً فاناً 584ارب روپے کابجٹ پیش کرکے اجلاس نمٹادیا۔ تفصیلات کے مطابق اپوزیشن نے اپنے حلقے نظر انداز کیے جانے کیخلاف بجٹ اجلاس روکنے کے لیے احتجاجاً اسمبلی کو یرغمال بنالیا۔مشتعل اپوزیشن ارکان اور کارکنوں نے اسمبلی کے چاروں داخلی دروازوں پر تالے لگا دیے ،ڈپٹی کمشنر کوئٹہ کی سربراہی میں وفد نے اپوزیشن سے مذاکرات بھی کیے لیکن اپوزیشن نے احتجاج ختم کرنے سے انکار کر دیا جس پر پولیس نے دھرنے کے شرکاء پر دھاوا بول دیا ، بکتر بند گاڑی مار کر اسمبلی کا مرکزی دروازہ توڑ دیا جس کی زد میں آکر اپوزیشن کے 3 ارکان اسمبلی زخمی ہوگئے۔ وزیراعلیٰ جام کمال کو پولیس حصار میں اسمبلی کے اندر پہنچایا گیا، اپوزیشن نے ان پرجوتا اچھالا، بوتل ماری ،دھکم پیل کے دوران وزیراعلی کو گملہ لگ ہی گیا۔ ہائیکورٹ کے حکم کے باوجود ایوان کو جانے والے راستے بند کر دیے گئے۔ اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالقدوس بزنجو کو بھی مشتعل کارکنوں نے اسمبلی میں جانے کی اجازت نہیں دی، جس کے بعد وہ مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔ اپوزیشن جماعتوں کے کارکنوں نے اسمبلی میں داخل ہونے کی کوشش تو وہاں موجود سیکورٹی اہلکاروںنے مزاحمت کی۔ انتظامیہ نے کشیدہ صورتحال کے پیش نظر پولیس کی بھاری نفری طلب کی۔ اہلکاروں نے مشتعل کارکنوں پر لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس کی شیلنگ کی۔ بی این پی مینگل سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن رکن اسمبلی احمد نواز پولیس اور کارکنوں کے تصادم میں زخمی ہوگئے۔بلوچستان اسمبلی کا احاطہ میدان جنگ کا منظر پیش کرتا رہا۔ اس سے قبل بلوچستان بجٹ کے خلاف اپوزیشن کے احتجاجی کیمپ میں اپوزیشن اراکین اور پولیس میں تلخ کلامی اور دھکم پیل ہوئی۔ اپوزیشن اراکین نے پولیس پر ناروا سلوک کا الزام لگاتے ہوئے حکومت کے خلاف نعرہ بازی کی۔ بی این پی کے رکن احمد نواز اسمبلی میں داخل ہو رہے تھے تو پولیس کی جانب سے انہیں روکا گیا جس پر پولیس اور اپوزیشن اراکین میں تلخ کلامی اور دھکم پیل شروع ہو گئی۔اپوزیشن اراکین نے پولیس کے رویے کے خلاف اسمبلی بلڈنگ کے انٹری پوائنٹ پر بیٹھ کر احتجاج کیا۔اپوزیشن جماعتوں کی اپیل پر مظاہرین نے قومی شاہراہیں بھی بلاک کر دیں جس سے نظام زندگی درہم برہم ہو کر رہ گیا ۔بلوچستان اسمبلی کی اپوزیشن جماعتوں بی این پی(مینگل)، پشتونخواہ میپ اور جمعیت علمائے اسلام نے اپنے حلقوں کو نظر انداز کرنے کے خلاف گزشتہ 4روز سے احتجاج جاری رکھا ہوا ہے۔متحدہ اپوزیشن کی کال پر کوئٹہ سے دیگر صوبوں کو جانے والی قومی شاہراہوںکو بلاک کر دیا گیا۔ کوئٹہ سے چمن، پنجاب اور خیبر پختونخوا کو ملانے والی شاہراہ کو کچلاک کے مقام سے بند کیا گیا ہے۔کوئٹہ سے تفتان اور کوئٹہ سے کراچی جانے والی آر سی ڈی شاہراہ کو میاں غنڈی کے مقام سے بلاک کیا گیا ہے۔شاہراہوں کی بندش سے دونوں اطراف گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئی ہیں۔ دونوں جانب سفر کرنے والے مسافروں کوشدید گرمی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔متحدہ اپوزیشن کا موقف ہے کہ گزشتہ سالوں کی طرح اس بجٹ میں بھی اپوزیشن رہنماؤں کے حلقوں کو نظر انداز کر دیا گیا، مطالبات پورے ہونے تک احتجاج جاری رہے گا۔ترجمان بلوچستان حکومت لیاقت شاہوانی نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپوزیشن ارکان نے بلوچستان اسمبلی پر دھاوا بولا اورایوان کا تقدس پامال کیا۔انہوں نے کہاکہ بار بار اپوزیشن سے تجاویز مانگیں مگر انہوں نے نہیں دیں ،یہ لوگ پڑھے لکھے نہیں ہیں، انہیں کیا پتا بجٹ کیا ہوتا ہے۔ بعد ازاںاسپیکر عبدالقدوس بزنجو بھی بمشکل ایوان میں پہنچ گئے جس کے بعد ان کی زیرصدارت اجلاس میںبلوچستان کا آئندہ مالی سال 2021-22 کے لیے 584 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا گیا جس میں بجٹ خسارہ 84.7ارب روپے بتایا گیا ہے۔صوبائی وزیر خزانہ ظہور بلیدی نے بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ غیر ترقیاتی اخراجات کیلیے 346 ارب جبکہ ترقیاتی اخراجات کیلیے 237 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں،تعلیم کیلیے 71 ارب ،صحت کیلیے 38 ارب جبکہ امن و امان 52 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا ہے کہ صورتحال کے مطابق بہترین بجٹ پیش کیا گیا ہے۔بجٹ اجلاس حزب اختلاف کے احتجاج کے باعث تاخیر سے شروع ہوا ۔حزب اختلاف کے ارکان اجلاس میں شریک نہیں ہوئے ۔حزب اختلاف کے اراکین نے کہا ہے کہ بلوچستان کی تاریخ میں اتنی پولیس اور بکتر بند گاڑیاں آج تک اسمبلی میں نہیں دیکھیں یہ عوامی بجٹ نہیں ہے ، دھونس دھمکیوں سے ایسے بجٹ نہیں لائے جاتے ، حکومت نے ہمیں ہماری کھوپڑیاں اڑانے کی دھمکیاں دی ہیں ، ہم نے نہیں دیکھا کہ وزیر اعلیٰ کو کس نے جوتا اور بوتل ماری ، ہم پر امن طریقے سے اسمبلی کے گیٹ پر دھرنا دے کر بیٹھے تھے کہ حکومت نے دھاوا بول دیا ، ہم کہہ رہے تھے کہ بجٹ کو موخر کیا جائے ، ہوسکتا ہے کہ حکومت بوتل اور جوتا اپنے ساتھ لائی ہو کیونکہ راکٹ لانچرآنسو گیس کے شیل ساتھ لائے تھے۔غیر قانونی، غیر آئینی بجٹ کسی صورت منظور نہیں ہونے دیں گے۔