ملالہ، حسن نثار اور مغربی دنیا

1557

ملالہ یوسف زئی کے نکاح سے متعلق منفی بیان نے بجا طور پر ایک ہنگامہ برپا کیا ہوا ہے۔ ملالہ یوسف زئی نے اپنے اس بیان میں نکاح سے بیزاری کا اور آزادانہ جنسی تعلق کے لیے شیفتگی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ آخر نکاح نامے پر دستخط کیوں ضروری ہیں اور دو افراد کے درمیان ’’پارٹنر شپ‘‘ کیوں نہیں ہوسکتی؟ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ پاکستانی معاشرے کا غالب حصہ جب ملالہ کے بیان کی مذمت کررہا تھا اس وقت حسن نثار ملالہ کے بیان کو توڑ مروڑ کر نکاح اور آزادانہ جنسی تعلق کو ہم معنی بنانے کے لیے کوشاں تھے۔ انہوں نے اپنے کالم میں لکھا۔
’’سب سے پہلے تو ’’نکاح‘‘ کے لغوی مفہوم پر غور فرمائیں۔ مطلب ہے ’’ملانا‘‘ اور ’’جمع‘‘ کرنا۔ عقد کا مطلب ہے مضبوطی سے گرہ باندھنا۔ ان لغوی معنی پر جتنا غور کرتے جائیں گے شانت ہوتے جائیں گے‘‘۔ (روزنامہ جنگ۔ جون 2021ء)
آپ نے دیکھا حسن نثار فرما رہے ہیں کہ ملالہ کے بیان پر اتنا برافروختہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ نکاح کا مطلب بھی وہی ہے جو آزادانہ طور پر قائم کی گئی پارٹنر شپ کا ہے۔ لیجیے حسن نثار نے ایک بار پھر قرآن و حدیث پر اپنے خودساختہ معنی مسلط کردیے۔ تو کیا آزادانہ طور پر قائم کیا گیا جنسی تعلق بھی مرد اور عورت کو اسی طرح ’’ملاتا‘‘ اور ’’جمع‘‘ کرتا ہے۔ کیا آزادانہ جنسی تعلق بھی اسی طرح مضبوطی سے گرہ باندھتا ہے؟ ایسا ہے تو مغربی دنیا کے افراد ہر دو تین سال کے بعد پارٹنر کیوں تبدیل کرتے رہتے ہیں؟ بالفرض وہ پارٹنر تبدیل نہ بھی کریں تو کیا خدا کے حکم اور رسول کی سنت کے مطابق نکاح کا مطلب بھی وہی ہے جو آزادانہ طور پر صنفی اور جنسی تعلق قائم کرنے کا مطلب ہے؟ اسلام میں مرد خدا کی ذات اور عورت خدا کی صفت رحمت کی علامت ہے۔ چناں چہ اللہ کے حکم اور اتباع سنت میں شادی ذات اور صفت کی یکجائی کا مظہر ہے اور اس کی اتنی تقدیس ہے کہ ابن عربی نے شادی کے ادارے کو کائناتی سطح کا عمل قرار دیا ہے مگر حسن نثار نے ملالہ کے دفاع میں نکاح کے تحت وجود میں آنے والے شادی کے ادارے اور آزادانہ جنسی تعلق کی بنیاد پر وجود میں آنے والی پارٹنر شپ کو ہم معنی بنا کر کھڑا کردیا ہے۔
ملالہ کے دفاع کے بعد حسن نثار نے حسب عادت اور حسب معمول مغرب پرستی کے کئی مناظر تخلیق کر ڈالے۔ حسن نثار نے کسی کے اس تبصرے پر غصے کا اظہار کیا کہ مغرب اپنے ایجنٹوں کے ذریعے شعائر اسلام پر حملے کراتا ہے۔ حسن نثار نے اس کے جواب میں کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آتی ہم اتنے مضبوط بااثر طاقت ور اور فیصلہ کن کب سے ہوگئے کہ ہمارے خلاف کسی کو ایجنٹس بھرتی کرنے پڑیں؟ حسن نثار کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ مغرب مسلمانوں سے نہیں اسلام سے ڈرتا ہے۔ اس لیے کہ مسلمانوں کی تاریخ میں اسلام بار بار ’’گیم چینجر‘‘ ثابت ہو چکا ہے۔ اس کی چند مثالیں عرض ہیں۔ شاہ ولی اللہ سے پہلے برصغیر کے مسلم معاشرے پر مردنی چھائی ہوئی تھی اور علوم کا تو ذکر ہی کیا قرآن و حدیث کا علم بھی اُٹھ چکا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا برصغیر میں اسلام اب کبھی قوت نہیں بن سکے گا اور اس کے خزاں رسیدہ شجر پر کبھی بہار نہیں آئے گی مگر شاہ ولی اللہ اور ان کے خانوادے نے دیکھتے ہی دیکھتے قرآن و حدیث کے علم کو زندہ کردیا۔ شاہ ولی اللہ نے خود قرآن کا فارسی میں ترجمہ کیا۔ ان کے فرزند نے قرآن کا ایسا اردو ترجمہ کیا کہ کہا جانے لگا کہ اگر قرآن اردو میں اُترتا تو ایسا ہی ہوتا۔ شاہ ولی اللہ کے زیر اثر پورے برصغیر میں قرآن اور حدیث کے دروس کا سلسلہ شروع ہوا۔ آج برصغیر میں اسلام ایک زندہ قوت ہے اور خود اسلامی جمہوریہ پاکستان اسلام کی انقلابی قوت کا ایک مظہر ہے۔ اسلام نہ ہوتا تو نہ مطالبۂ پاکستان ہوتا، نہ تحریک پاکستان ہوتی، نہ پاکستان ہوتا۔ قائد اعظم نے جب دو قومی نظریے یعنی اسلام کی بنیاد پر قیام پاکستان کا مطالبہ کیا تو قوموں کا تشخص مذہب سے نہیں نسل، جغرافیے اور زبان سے متعین ہوتا تھا مگر قائد اعظم نے کہا کہ ہم اسلام کی بنیاد پر ہندوئوں سے مختلف ہیں۔ جس وقت پاکستان کے قیام کا مطالبہ کیا گیا قائد اعظم صرف محمد علی جناح تھے مگر پاکستان کے نظریے نے انہیں ’’قائد اعظم‘‘ بنا کر کھڑا کردیا۔ قائد اعظم مطالبہ پاکستان سے پہلے صرف افراد کے وکیل تھے دو قومی نظریے نے انہیں ایک مذہب، ایک تہذیب، ایک تاریخ اور ایک قوم کا وکیل بنا کر کھڑا کردیا۔ قیام پاکستان کے مطالبے کے وقت برصغیر کے مسلمان ایک ’’بھیڑ‘‘ تھے، ایک ہجوم تھے، اسلام نے بھیڑ اور ہجوم کو قوم بنا کر کھڑا کردیا۔ پاکستان کا قیام ’’ناممکن‘‘ تھا مگر اسلام کی قوت، برکت اور شوکت نے ’’ناممکن‘‘ کو ’’ممکن‘‘ بنا کر کھڑا کردیا۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے اقبال، مولانا مودودی اور حسن البنا کے ذریعے مسلم دنیا میں فکری بیداری پیدا کی۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے ایران میں انقلاب کو ممکن بنایا، یہ اسلام ہی تھا جس نے افغانستان میں جہاد اور شوق شہادت کے ذریعے سوویت یونین اور امریکا کو شکست دی۔ چناں چہ مغرب اسلام سے ڈرتا ہے تو اس کا پورا جواز ہے، مغرب نہ صرف یہ کہ اسلام سے خوف زدہ ہے بلکہ وہ اس کی قوت کو زائل کرنے کے لیے ایجنٹس بھی تخلیق کرتا رہتا ہے۔ حسن نثار ایمانداری سے کام لیں تو وہ گواہی دیں گے کہ مسلم دنیا کے فوجی اور سول حکمران اور مسلم دنیا کے بادشاہ مغرب کے ایجنٹس ہیں۔ مغرب نے ان ایجنٹوں کے ذریعے الجزائر میں اسلامی فرنٹ کا راستہ روکا، مغرب نے ان ایجنٹوں کے ذریعے حماس اور اخوان کا راستہ روکا اور انہیں دہشت گرد قرار دلوایا۔ مغرب نے انہی ایجنٹوں کے ذریعے مصر کے صدر مرسی کی راہیں مسدود کیں۔ چناں چہ حسن نثار کا یہ تجزیہ درست نہیں کہ ہم اتنے طاقت ور کب سے ہوگئے کہ مغرب کو ہم سے خطرہ لاحق ہو۔ جب تک مسلمانوں کے پاس اسلام ہے، اسلامی فکر ہے، اسلامی عمل ہے مغرب مسلمانوں سے ڈرتا رہے گا۔
حسن نثار نے اپنے کالم میں یہ راگ بھی الاپا ہے کہ اپنی تمام تر عریانی و فحاشی اور بے راہ روی کے باوجود مغرب ہی غالب ہے۔ وہی دنیا کو لیڈ کررہا ہے۔ اس امر میں کوئی شبہ ہی نہیں کہ مغرب پوری دنیا پر غالب ہے مگر غالب ہونے کا مطلب صحیح ہونا تو نہیں ہے۔ کیا چنگیز خان پورے خطے پر غالب نہیں تھا تو کیا چنگیز خان درست تھا؟ کیا کمیونزم نے آدھی دنیا کو اپنی گرفت میں نہیں لیا ہوا تھا، مگر مغرب کہتا تھا کہ کمیونسٹ دنیا شیطانوں کی دنیا ہے۔ حالاں کہ اگر غلبہ ہی سب کچھ ہے تو مغرب کو کمیونزم کے ساتھ دوستی کرلینی چاہیے تھی۔ کربلا میں ظاہری فتح تو یزید کو حاصل ہوئی تو کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ امام حسینؓ غلط تھے اور یزید درست تھا؟ آج کی دنیا میں چین سپر پاور بن کر اُبھر رہا ہے۔ اس نے پورا افریقا مغرب سے چھین لیا ہے۔ وہ جنوبی ایشیا میں تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ بھی چین کی طرف دیکھ رہا ہے، مگر مغربی دنیا چین کو ایک شیطانی قوت باور کرا رہی ہے۔ حسن نثار اس سلسلے میں خود شیطان ہی کی مثال لے لیں۔ وہ ایک وجود ہونے کے باوجود پوری دنیا کو اپنے اشاروں پر نچا رہا ہے، تو کیا شیطان درست اور قابل تقلید ہے؟۔
حسن نثار نے اپنے کالم میں یہ راگ بھی الاپا ہے کہ مغرب کو جھوٹ اور فراڈ سے نفرت ہے۔ وہ قانون کا احترام کرتا ہے۔ وہ ایجاد و اختراع کی علامت ہے۔ موجودہ دنیا کی ایک بڑی خرابی بھی ایسی نہیں جو مغرب کی پیدا کردہ نہ ہو۔ فلسطین اور کشمیر کے تنازعات مغرب کی وجہ سے حل نہیں ہوپاتے۔ مغرب مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کا پشت پناہ ہے اور جنوبی ایشیا میں بھارت کا۔ پوری دنیا اسلحے کی دوڑ دوڑ رہی ہے تو اس لیے کہ مغرب کے اسلحہ ساز کارخانے چلتے رہیں۔ دنیا کی 75 معیشتیں تباہ حال ہیں تو اس لیے کہ وہ آئی ایم ایف کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہیں۔ آئی ایم ایف نہ معیشتوں کو آزاد ہونے دیتا ہے نہ صحت مند ہونے دیتا ہے۔ یہ مغرب ہے جس نے دو عالمی جنگیں ایجاد کیں اور 10 کروڑ سے زیادہ انسانوں کو مار ڈالا۔ یہ امریکا اور یورپ ہیں جو کمزور ملکوں میں حکومتیں گراتے اور برسراقتدار لاتے ہیں۔ مغرب قانون کا کتنا پابند ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ امریکا گزشتہ 60 سال میں سو بار سے زیادہ فوجی مداخلتیں کرچکا ہے۔ مغرب کو ایجاد و اختراع سے محبت ہوتی تو وہ چین کی 5-G ٹیکنالوجی کو قبول کرتا اور اسے سینے سے لگاتا مگر امریکا نے خود بھی 5-G ٹیکنالوجی کو مسترد کردیا ہے اور یورپ پر بھی دبائو ڈال رہا ہے کہ وہ بھی 5-G ٹیکنالوجی کو قبول نہ کرے۔ مغرب کی یہ کیسی انسان دوستی اور ایمانداری ہے کہ جو دوائیں مغربی ملک اپنے یہاں ممنوع قرار دے دیتے ہیں۔ مغرب کے دوا ساز ادارے وہ دوائیں ترقی پزیر ملکوں میں فروخت کرتے رہتے ہیں؟ مغرب اب تک آزادانہ تجارت کا علمبردار تھا مگر جب سے چین دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی طاقت بنا ہے امریکا چین کی مصنوعات پر بھاری محصولات عائد کرکے آزادانہ تجارت کو ناممکن بنارہا ہے۔