اسمبلی تماشا

282

قاسم جمالہم سب اور اکثر لوگوں نے اپنے بچپن میں ٹی وی یا اپنے گھروں کے باہر تھیٹر پر پتلی تماشا ضرور دیکھا ہوگا اور اس سے لطف اندوز بھی ہوئے ہوںگے۔ پاکستان میں پتلی تماشوں کے حوالے ٹی وی اسٹار عثمان پیرزادہ کے والد رفیع پیرزادہ جو رفیع پیر تھیٹر کے تحت پتلی تماشا کے پروگرامات کرتے تھے اور آج کل ان کے بچے عثمان پیر زادہ، عمران پیر زادہ، فیضان پیر زادہ اور سلمان پیر زادہ دنیا بھر میں پتلی تماشا فیسٹیول میں حصہ لیتے ہیں اور اپنے فن سے دنیا کو لطف اندوز کرتے ہیں۔ پیر زادہ فیملی کے بعد فاروق قیصر مرحوم نے اس فن میں کمال کامیابی اور عروج حاصل کیا۔ ٹی وی پر ان کے پروگرام انکل سرگم نے بے مثال کامیابی حاصل کی اور آج بھی اس پروگرام کے کرداروں انکل سرگم، ہیگا، ماسی مصیبتے، نونی پا، چاچا ٹی پٹاچ ودیگر کرداروں کو بے مثال مقبولیت حاصل ہوئی۔ ہماری نسل نو جو سوشل میڈیا اور ٹک ٹاک کے لشکاروں میں پھنسی ہوئی ہے اور انہیں اس طرح کے کرداروں، فنکاروں اور پرگرامات کا نہ علم ہے اور نہ ہی انہیں دیکھنے کا شوق۔ وہ تو ہمارے قومی اسمبلی وصوبائی اسمبلیوں کے ارکان کا ہم سب کو مشکور اور ممنون ہونا چاہیے کہ آئے روز اسمبلی میں ہونے والی دھینگا مشتی اور اکھاڑے کی لڑائی دیکھ کر سارے شوق پورے ہوجاتے ہیں۔
تحریک انساف کی حکومت کے حالیہ ہنگامہ خیز بجٹ اجلاس میں تو اپوزیشن اور حکمران جماعت نے تمام سابقہ ریکارڈ ہی توڑ ڈالے۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی تقریر کے دوران جو فساد برپا ہوا الامان الحفیظ، حکومتی ارکان اور وزرا ڈیکسوں پر کھڑے ہوکر سیٹیاں بجا رہے تھے اور چیختے چلاتے رہے، کان پڑی آواز کسی کو سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ اسپیکر کی کوئی رکن بات اور وارننگ سننے کو تیار نہیں تھا۔ اسپیکر نے دو مرتبہ اجلاس موخر کیا اور اجلاس کی کارروائی معطل کی گئی، سیکورٹی کے لیے ایک اور خصوصی اسکواڈ منگوایا گیا لیکن پاکستان کے انتہائی قابل ترین باشعور مہذب ارکان اسمبلی وزراء کسی کی بھی کوئی بات سننے کو تیار نہیں تھا۔ یہ دن پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کے بدترین دن کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ہنگامہ آرائی کے دوران حکومتی اور لیگی ارکان نے بجٹ دستاویزات ایک دوسرے کو دے ماری جس کے نتیجے میں کئی ارکان سمبلی اور سیکورٹی سارجنٹ بھی زخمی ہوئے ارکان نے اس دھینگا مشتی اور لڑائی میں ایک دوسرے کو فحش گالیاں بھی بکیں۔ وزیر اعظم عمران خان کو پل پل کی خبر دی جا رہی تھی اور وہ اس اجلاس کو مانیٹر بھی کر رہے تھے۔ شدید ہلڑ بازی کی وجہ سے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اپنی تقریر بھی مکمل نہیں کر سکے۔ ارکان اسمبلی کی جانب سے عمران کی باجی چور ہے کے نعرے پر مریم کا چچا چور ہے۔ مریم کا بابا چور ہے کے نعرے لگ گئے۔
اسپیکر نے جیسے ہی بجٹ پر تقریر کے لیے فلور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو دیا تو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی قیادت میں تحریک انصاف کے ارکان اپنی نشستوںسے کھڑے ہوگئے اور شہباز شریف کے خلاف نعرے لگانے شروع ہوگئے۔ ایک حکومتی رکن نے بھی اسمبلی اجلاس میں باجا بجانا شروع کر دیا۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے اس موقع ہر اسپیکر قومی اسمبلی کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس تمام صورتحال کا انہیں قصور وار ٹھیراتے ہوئے کہا کہ اسپیکر صاحب آپ اس ایوان کے محافظ ہیں اور آپ نے چپ سادھ رکھی ہے آپ پر سکتہ طاری ہے۔ اس موقع پر حکومتی اتحادی جماعت کے اراکین خاموشی کے ساتھ اپنی نشستوں پر بیٹھے رہے اور ق لیگ، ایم کیو ایم، جی ڈی ایم کے اراکین کی جانب سے کسی بھی قسم کا کوئی ردعمل نہیں آیا۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے اجلاس اگلے دن دو بجے تک ملتوی کردیا اور قومی اسمبلی کے ایوان کے قواعد وضوابط پر عمل پیرا ہوکر کر ایوان کی توہین کے مرتکب ارکان جن میں حکومتی جماعت پی ٹی آئی کے ارکان فہیم خان، علی نواز خان، عبدالمجید، ن لیگ کے روحیل اصغر، علی گوہر خان، حامد حمید اور پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی آغا رفیع اللہ پر قومی اسمبلی میں داخلے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ ان ارکان کی جانب سے غیر پارلیمانی رویہ اور نازیبا زبان کا استعمال اور گالی گلوچ کا الزام عائد کیا گیا اور ایوان میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی۔ اسپیکر نے ایوان میں ہنگامہ آرائی کی جامع تحقیقات کا بھی اعلان کیا ہے۔ یقینا قومی اسمبلی کے اس بجٹ اجلاس میں ہونے والی اس ہنگامہ آرائی اور شور شرابے سے پوری قوم کے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔ جس اسمبلی میں قانون سازی اور عوام کی فلاح وبہبود کے کام ہونے چاہیے ان نااہل اور غیر ذمے دار افراد نے اسے مچھلی بازار بنا دیا ہے۔
بجٹ اجلاس کے دوران شور شرابا چیخ پکار آواز کسنا کوئی نہیں بات نہیں ہے اس سے قبل دیگر حکومتوں کے ادوار میں بھی بجٹ اجلاس منعقد ہوئے چیخ پکار، نعرے بازی بھی کی گئی لیکن پی ٹی آئی کی حکومت میں یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ حکومتی ارکان کی جانب سے اس چیخ پکار میں شدت پیدا کی گئی۔ حکومتی ارکان علی امین گنڈا پور اور فہیم خان اس کشیدہ ماحول کو اور زیادہ گرم کرتے رہے اور اس میں شدت پیدا کرتے رہے۔ بجٹ کی بھاری بھر کم کتابوں سے یہ لوگ ن لیگ کے ارکان پر حملہ آور ہوئے۔ اپوزیشن لیڈرکی نشست پر بھی بجٹ کتابیں پھینک دی گئیں اور یہ پہلا موقع تھا کہ کسی بھی حکومتی پارٹی کی جانب سے اپنی ہی حکومت کا ایجنڈا پھاڑ کر پھینک دیا جائے۔
وزیر اعظم عمران خان جو ریاست مدینہ کا نام لیتے نہیں تھکتے وہ یہ بتانا پسند کریںگے کہ یہ سب تماشا جو ان کی حکومت میں کیا جا رہا ہے اس سے ریاست مدینہ کا کیا تعلق ہے۔ ریاست مدینہ میں تو در گزر سے کام لیا جاتا تھا آپ کے وزرا تو کھلم کھلا کہہ رہے ہیں کہ جو ہمیں ایک پتھر مارے گا ہم اس کو دو پتھر ماریں گے۔ پاکستان میں جمہوریت کو بدنام اور داغ دار کرنے میں ہمیشہ اس طرح کے غیر ذمہ دار اور نااہل افراد کا ہاتھ رہا ہے جنہوں نے اپنے بڑوں کو خوش کرنے کے لیے پورے سسٹم کو دائو پرلگا دیا۔ نسل نو جنہوں نے پتلی تماشا نہیں دیکھا وہ اسمبلی میں ہونے والے اس ناٹک اور تماشے سے لازمی لطف اندوز ہو رہے ہوںگے۔ یہ پتلی تماشا جس کی دوڑی جن لوگوں کے ہاتھ میں ہے وہ ملک وقوم کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں۔ عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والے یہ ارکان اسمبلی جن کی مراعات تنخواہوں ودیگر عیاشیوں پر اربوں روپے قوم کے خون پسینے کی کمائی سے خرچ کیے جاتے ہیں۔ ان لوگوں نے آج ثابت کر دیا ہے کہ انہیں عوام اور ملک کے مستقبل کی کوئی فکر نہیں ہے۔ بجٹ جیسے انتہائی اہم اجلاس میں اپوزیشن اور حکومتی ارکان کی جانب سے اس طرح کی غیرذمہ داری کا مظاہرہ افسوسناک بھی ہے اور قابل مذمت بھی۔ ان ارکان کی ایک دو اجلاسوں میں شرکت پر پابندی کے بجائے ان کی رکنیت ہی ختم کی جائے اور آئندہ کسی بھی انتخاب کے لیے انہیں نااہل قرار دیا جائے تو پھر اس طرح کی غیر مہذب اور ناخوشگوار صورتحال سے بچا جا سکتا ہے ورنہ اس طرح کے لوگ ایوان ہی نہیں پاکستان کی بھی تذلیل اور توہین کرتے رہیں گے۔