فیصلہ سازی میں تھنک ٹینکس کا کردار

646

پاکستان میں اس وقت کتنے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کام کر رہے ہیں اور ان میں کتنے سرکاری سرپرستی اور کتنے نجی شعبے کے تعاون سے چل رہے ہیں گو اس حوالے سے شاید کسی بھی سطح پر کوئی قابل ذکر اور معتبر اعداد وشمار دستیاب نہیں ہیں لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مغربی ممالک کی مجموعی ترقی کے پیچھے کئی دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ وہاں گورننس اور پالیسی سازی کے شعبوں میں قائم تھنک ٹینکس کا ایک نمایاں اور کلیدی کردار ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ فارمل تھنک ٹینکس کے علاوہ مغربی دنیا کی جامعات اور خاص کر علوم سماجیات، پالیسی سازی اور گوننس سے متعلق علمی ادارے بھی بلاواسطہ یا بلواسطہ تھنک ٹینکس کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ اصل میں ہمارے ہاں ہر فن مولا کا جو عمومی تصور ہر شعبے میں پایا جاتا ہے یہ اسی نا سمجھی کی وجہ ہے کہ ہمارا آنے والا ہر نیا دن پرانے دن سے بدتر ثابت ہورہا ہے۔ اس حوالے سے نمایاں مثال ہمارے ہاں برسر اقتدار رہنے والی حکومتیں اور مختلف سیاسی جماعتوں کی ناقص کارکردگی ہے۔ اس بات سے شاید ہی کوئی اختلاف کر ے گا کہ ہمارے ہاں پالیسی سازی کا اختیار کبھی بھی عوامی نمائندوں کے ہاتھ میں نہیں رہا ہے حالانکہ جمہوریت کی روح کے تحت اس اختیار پر حق صرف عوام کے منتخب نمائندوں کا ہے لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں چونکہ سیاستدانوںکی مختلف شعبوں میں علم اور تربیت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے اور انہیں اس حوالے سے بعض بنیادی باتوں کا علم بھی نہیں ہوتا اس لیے عیار بیورو کریسی انہیں یا تو مختلف حیلے بہانوں سے کام نہیں کرنے دیتی یا پھر ان کی ناسمجھی کی وجہ سے انہیں جلد ہی شیشے میں اتار کر ان کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے کر انہیں بیوقوف بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی لہٰذا ایسے میں اس کلچر کو تبدیل کرنے کا آسان نسخہ مختلف شعبوں میں قائم تھنک ٹینکس سے عملی راہنمائی کا حصول ہے۔ اس پس منظر کے ساتھ اگر ہم پشاور میں 1980کی دہائی سے قائم انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز (آئی آر ایس) کا بطور تھنک ٹینک جائزہ لیں تو ہمیں یہ ادارہ اپنے اہداف اور مقاصد کے حصول میں کافی حد تک کامیاب نظر آتا ہے۔
آئی آر ایس کی بنیاد 1981 میں جماعت اسلامی کے تیسرے مرکزی امیر قاضی حسین احمد مرحوم نے اس وقت رکھی تھی جب ابھی وہ جماعت کے مرکزی امیر نہیں بنے تھے۔ بے سرو سامانی میں ایک کمرے سے آئی آر ایس کے آغاز کے وقت کبھی کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ آگے جاکر یہ ادارہ نہ صرف افغانستان سے سوویت یونین کی پسپائی بلکہ وسطی ایشیائی مسلم ریاستوں کی سوویت یونین کے غاصبانہ قبضے سے آزادی میں بھی فکری اور نظریاتی رہنما کا کردار ادا کرے گا۔ آئی آر ایس کے حوالے دلچسپ بات یہ ہے کہ پچھلی چار دہائیوں کے دوران یہ مختلف نشیب وفراز سے گزرتا رہا ہے جسے اگر تین ادوار میں تقسیم کیا جائے تو شاید بے جا نہیں ہوگا۔ اس کا پہلا دور جس میں اسے قاضی صاحب کی براہ راست سرپرستی کے علاوہ پروفیسر محمد ساعد مرحوم، پروفیسر محمد سلیم مرحوم، پروفیسر فتح الرحمن مرحوم، پروفیسر عبد العزیز خان نیازی مرحوم، انجینئر شاہ محمود مرحوم اور ڈاکٹر فضل الرحمن قریشی جیسی نابغہ روزگار علمی شخصیات کا عملی تعاون حاصل رہا۔
آئی آر ایس کا زیادہ تر فوکس قرآن پاک اور دیگر اسلامی کتب کا روسی زبان میں ترجمہ کر کے اس لٹریچر کو افغانستان کے راستے روس اور اس کے زیر تسلط وسط ایشیائی مسلم ریاستوں تک پہنچانا ہوتا تھا جو اس دور میں یقینا جان جوکھم کا کام تھا اور اس مقصد کے لیے کئی راستے اپنائے جاتے تھے جن میں ایک معروف طریقہ افغانستان میں اس روٹ یا راستے پر جگہ جگہ ترجمہ شدہ لٹریچر کو راستے کے کنارے پڑے پتھروں پر رکھا جاتا تھا جہاں سے روسی فوجیوں کے کانوائے گزرتے تھے۔ اسی طرح ان دنوں چونکہ سوویت ریاستوں میں کمیونزم سے متاثرہ پاکستانی طلبہ کی ایک بڑی تعداد زیر تعلیم تھی تو ان طلبہ کے ذریعے یہ لٹریچر منتقل کیا جاتا تھا۔ افغان جہاد کے خاتمے کے بعد آئی آر ایس کافی عرصے تک غیر فعال رہا البتہ نوے کی دہائی کے وسط میں جب افغانستان میں طالبان کی تحریک اٹھی اور اس کے اثرات پاکستان بالخصوص قبائلی علاقوں، خیبر پختون خوا اور خطے کے دیگر ممالک پر پڑنے لگے تو اس وقت ان حالات پر تحقیق اور تجزیے وتصنیف کی ایک بار پھر ضرورت محسوس کرتے ہوئے آئی آر ایس کو فعال کرنے کا فیصلہ کیا گیا اس مرتبہ بھی یہ فریضہ محترم قاضی حسین احمد ہی نے انجام دیا جنہوں نے یہ ٹاسک ڈاکٹر محمد اقبال خلیل کے حوالے کیا۔ آئی آر ایس کے دوسرے دور میں افغانستان کے حالات پر کئی کامیاب سیمینارز اور ڈائیلاگز کے علاوہ خطے کے بعض دیگر ایشوز پر بھی مذاکروں اور مباحثوں کا انعقاد کیا گیا۔ اس دوران کئی دیگر تھنک ٹینکس سے بھی رابطے استوار کیے گئے، ایک فعال ویب سائٹ لانچ کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا کے پچاس ایسے تھنک ٹینکس کی تحقیق کی مانیٹرنگ اور ان کی رپورٹس کے تخلیص شدہ تراجم کرنے کاسلسلہ شروع کیا گیا جو افغانستان اور اس خطے سے متعلق ہوتی تھیں۔ بعد میں آئی آر ایس بعض مالی اور انتظامی مشکلات کے باعث غیر فعال ہونے کے بعد اب اس کے دفتر کی نئی عمارت کی تعمیر کے بعد ایک بار پھر فعالیت کی راہ پر گامزن ہو کر نئے مینڈیٹ اور وژن کے ساتھ اپنے تیسرے دور کا آغاز کردیا ہے۔ واضح رہے کہ آئی آر ایس کا نیا دفتر خیبر کلے ہائوسنگ اسکیم رنگ روڈ پشاور میں تعمیر کیا گیا ہے جو ابتدائی طور پر زیر زمین قاضی حسین احمد آڈیٹوریم اور گرائونڈ فلور کے دفاتر اور لائبریری پر مشتمل ہے جب کہ یہاں بالائی منزل پر کانفرنس روم کے علاوہ مہمانوں کے لیے رہائش گاہیں تعمیر کرنے کا منصوبہ بھی بنایا گیا ہے۔