بجٹ کے چند گوشے

356

۔14 جون 2021 کو سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے سندھ اسمبلی میں اپوزیشن کے شور شرابے اور نعروں کے باوجود بجٹ پیش کردیا، اس بجٹ کا حجم 1477ارب روپے ہے۔ اس میں کراچی جو پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اور سندھ کا دارالحکومت ہے یہ شہر اب دنیا کے ان دس شہروں میں شامل ہوچکا ہے جنہیں ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ شہر اب رہائش کے قابل نہیں۔ کراچی شہر جو کبھی روشنیوں کا شہر ہوا کرتا تھا یہاں کی راتیں جاگا کرتی تھیں روزگار کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا پانی کچی آبادیوں تک جایا کرتا تھا پورے ملک سے لوگ اس شہر میں روزگار کی تلاش میں آیا کرتے تھے۔ تمام لسانی اکائیاں مل جل کر اس شہر کی خدمت اور ترقی میں اپنا کردار ادا کرتی تھیں جو اس شہر میں آتا یہ شہر اس کو اپنے دامن میں جگہ دیتا محبتوں کی یہ ایسی بستی تھی کہ جو بھی آتا یہیں کا ہوجاتا۔ اس شہر کے محسنوں نے اس کی خوب خدمت کی، اس کو تیز رفتار ترقی کی راہ پر گامزن کیا، اس کے محسنوں میں جناب عبدالستار افغانی جنہوں نے دو مرتبہ اس شہر کی قیادت کی ان کے کئی سال کے بعد نعمت اللہ خان کو اس شہر کی قیادت کا موقع ملا انہوں نے بھی اس شہر کا نقشہ بدلا یہ تمام قیادتیں جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والی قیادتیں تھی جنہوں نے اس شہر کی تیز رفتار ترقی میں اپنا کردار ادا کیا اور چند سال میں شہر دنیا کے بہترین اور خوبصورت شہروں میں شمار ہونے لگا۔ ہر طرف سڑکوں کا جال بچھا، پارک بنائے گئے۔ شہر کی اسلامی شناخت کو اجاگر کیا گیا، یہ شہر تعلیمی شناخت کی وجہ سے پورے ملک میں جانا پہچانا جاتا تھا اس لیے اس شہر کی آبادی کے لحاظ سے یہاں سرکاری اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں کے قیام کو عمل میں لا یا گیا، صحت کے مراکز کی کمی کو آبادی کے لحاظ پورا کیا گیا۔ مگر شاید یہ ترقی اس شہر کے دشمنوں کو نہ بھائی۔ یہاں تعصب کی ایسی آندھی چلائی گئی جو اس شہر کے بیٹوں کے ذریعے ہی سے چلائی گئی اور اس شہر کو تعصب کی پھیلانے والے لوگوں ہی کے حوالے کردیا گیا شہروں میں ایم کیو ایم نے تعصب کو پروان چڑھایا اور اور اندرون سندھ پیپلز پارٹی نے تعصب کو پروان چڑھایا اور تیس سال تک دونوں تعصب کو بنیاد بنا کر اقتدار کے مزے لوٹتے رہے اور شہر جلتا رہا۔ یہ سارا کھیل اسٹیبلشمنٹ اور تمام ادارے خاموشی سے دیکھتے رہے جب پانی سر سے اوپر ہوا تو اس کا سدباب کیا گیا اور جہاں تمام دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ہوا وہاں ایم کیو ایم کے دہشت گردوں کی بھی باری آئی شہر کو ایم کیو ایم کے چنگل سے آزادی تو مل گئی مگر اس وقت تک شہر تباہ ہوچکا تھا۔ کراچی الیکٹر ک سپلائی کو کھمبوں کی قیمت میں بیچا جاچکا تھا۔ پورے شہر کی سڑکیں کھنڈر بن چکی تھی۔ پانی کی فراہمی کا نظام تباہ ہوچکا تھا جس پانی کے منصوبے کو نعمت اللہ خان صاحب کے زمانے میں مکمل کیا گیا اور کراچی کے لیے پانی میں اضافہ کیا گیا، گزشتہ پندرہ سال میں ایم کیو ایم نے اس میں ایک قطرے کا اضافہ بھی نہیں کیا۔ کے فور منصوبے کو اب سے برسوں پہلے مکمل ہو جانا چاہیے تھا وہ آج بھی محض فائلوں میں موجود ہے۔ پیپلز پارٹی کو تو کراچی کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں اور اگر دلچسپی ہے تو کراچی کے وسائل سے ہے، وہ کراچی کو سندھ کا حصّہ کہتی تو ہے مگر اس شہر کو سندھ کا حصّہ سمجھتی نہیں ہے وہ کراچی سے اپنا حصّہ لینا جانتی ہے جس طرح وفاق لیتا ہے مگر وہ کراچی کو اس کی آمدنی کا عشر عشیر بھی دینا نہیں چاہتی۔ وہ جعلی مردم شماری کو غلط تسلیم تو کرتی ہے جس کے نتیجے میں سندھ کی آبادی بھی ڈیڑھ کروڑ کم ہوئی ہے۔ اگر کراچی کی آبادی کو درست طریقے سے گنا جاتا تو اس سے قومی و صوبائی نشستوں میں اضافہ ہوتا اور وفاق سے ملنے والی گرانٹ میں اضافہ ہوتا، کراچی میں یوسیز کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا، کراچی کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے بجٹ میں اضافہ ہوتا، مگر اس نے اور ایم کیو ایم نے وفاق کی اس جعلی مردم شماری کو تسلیم کرکے کراچی کو پسماندگی کی طرف دھکیلا ہے۔
اب دوبارہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی مل کر شہر کو تعصب کی آگ میں جھونکنے کے لیے سرگرم ہیں تاکہ کراچی کا موجودہ امن بھی تباہ ہوجائے کراچی کے شہریوں نے تیس سال کے بعد جس ایم کیو ایم سے چھٹکارا حاصل کیا ہے شہری آبادیوں میں دوبارہ اس کے مر ے ہوئے جسم میں جان ڈالی جارہی ہے۔ اس کا تازہ ترین شاخسانہ بحریہ ٹاؤن کا واقعہ ہے جس کو تعصب کا رنگ دے کر پیش کیا جارہا ہے یہ ایک تیر سے پیپلز پارٹی نے دو شکار کھیلے ہیں۔
سید مراعلی شاہ کراچی میں پیدا ہوئے اور NED یونیورسٹی کراچی سے انجینئرنگ کی ڈگری سلور میڈل کے ساتھ حاصل کرتے ہوئے قائد اعظم اسکالر شپ کے حقدار پائے اور اس اعزاز کے ساتھ کیلی فورنیا یونیوسٹی سے اعلیٰ تعلیمی ڈگریاں حاصل کیں اس لیے اس ادارے کی لاج رکھتے ہوئے انہوں نے یہ اعلان کیا کہ یہاں ٹیکنالوجی پارک قائم کیا جائے گا لیکن مراد علی شاہ صرف اندرون سندھ کے نہیں بلکہ کراچی کے بھی وزیر اعلیٰ ہیں ان کو کراچی کی حالت زار پر خصوصی طور پر توجہ دینی چاہیے۔ یہ جو بجٹ میں 109 ارب روپے رکھے گئے ہیں یہ بھی اگر دیانتداری سے خرچ کیے گئے تو کراچی کی حالت بہتر ہوسکتی ہے کیونکہ ان کے والد محترم نے کراچی کو پیرس بنانے کا خواب دکھا یا تھا۔ ہوسکتاہے کہ کوئی سیاسی یا پارٹی مجبوریاں آڑے آرہی ہوں مگر اپنے والد کے خواب کو حقیقت کا جامہ آپ پہنا سکتے ہیں۔