ایک اور قصیدہ

630

حالیہ بجٹ پر وزیر اعظم عمران خان اور ان کے ہم نوا ترقیاتی پروگراموں کے بارے میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں مگر ان کے اپنے قلابے ڈھیلے ہورہے ہیں صحت کارڈ کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ ہمارا صحت سسٹم عوام کو سو فی صد علاج معالجہ کی سہولت فراہم کرے گا سوال یہ ہے کہ حکمران طبقہ گا ما پا کا راگ سنا کر عوام کی سماعت کو کب تک لہو لہان کرتا رہے گا۔ کیا تحریک انصاف میں کوئی ایسا باشعور شخص موجود نہیں جو وزیر اعظم کے ہم نوائوں کو سمجھا سکے کہ سرکاری اسپتالوں میں ادویات کی فراہمی یقینی بنا دی جائے تو صحت کارڈ کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔
تعلیم کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اتنے اسکول قائم کیے جائیں گے کہ کوئی بچہ تعلیم سے محروم نہیں رہے گا۔ سوال یہ ہے کہ پہلے ہی جو اسکول موجود ہیں ان کے بارے میں آپ نے کیا کیا ان کا انجام بھی پرانے قائم شدہ اسکولوں ہی کی طرح ہوگا۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی پڑھا لکھا پنجاب کا نعرہ لگاتے رہے پہلی بات تو یہ کہ پڑھا لکھا پاکستان کیوں نہیں موصوف ان دنوں پنجاب اسمبلی کے اسپیکر ہیں۔ وزیر اعظم نے اپنی شاہی بگھی کی نشستیں پوری کرنے کے لیے انہیں بھی بگھی کی سواریوں میں شامل کرلیا ہے۔ ایک ایسے شخص کو اسپیکر کیوں بنایا گیا ہے جس نے پاکستان پر پنجاب کو فوقیت دی۔ جن دنوں وہ وزیر اعلیٰ پنجاب ہوا کرتے تھے اور پڑھے لکھے پنجاب کا نعرہ بڑے جوش و خروش سے لگایا کرتے تھے مگر موصوف نے پنجاب کو نقصان پہنچانے کے سوا کچھ نہیں کیا۔
بہاولپور کے بینائی سے محروم ممتاز شاعر ظہور آثم کا بیٹا نویں جماعت میں داخل ہوا تو ہیڈ ماسٹر صاحب نے کہا کہ اگر کرسی پر بیٹھنا ہے کہ تو کرسی کے لیے فلاں فرنیچر کی دوکان پر ڈیڑھ سو روپے جمع کرا دو۔ ظہور آثم کی مالی حالت ایسی نہیں کہ وہ ڈیڑھ سو روپے کی کرسی خرید کر اسکول کو پیش کرتا۔ سو ہم نے اس کی مجبوری کو مدنظر رکھ کر ڈیڑھ سو روپے جمع کرایا اور ہاں یاد آیا کہ اسکول میں سیلنگ فین بھی نہیں تھا کسی طالب علم کے والد نے پنکھا خرید کر دیا تاکہ بچے گرمی کی اذیت سے محفوظ رہیں۔ اس کے باوجود پرویز الٰہی پڑھا لکھا پنجاب کا نعرہ لگاتے رہے اور میڈیا سے متعلق مراعات اور سہولتیں دے کر اپنی کارکردگی کی شان میں قصید لکھواتے رہے۔ فنی تعلیم کے حصول کے لیے سنہرے خواب دکھا کر اور ماہانہ وظیفہ دے کر چھ ماہ سے دو سال تک کا کورس کرایا گیا۔ مگر دس فی صد نوجوانوں کو مراعات اور سہولت فراہم نہ کی گئی۔ بہاولپور ٹیکنیکل کالج میں نوجوانوں کو سیکورٹی گارڈ کی تربیت دی گئی اور وعدہ کیا گیا کہ تربیت کے بعد انہیں اسکولوں کالجوں اور دیگر سرکاری محکموں میں ملازمت اور دیگر مراعات دی جائیں گی۔ مگر سیکورٹی گارڈ کی ملازمت ان کے لیے شجرہ ممنوع ہی بنی رہی۔ آرمی قیادت نے ہمیشہ رینجرز کو پاکستان کی اولین لائن کہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ فوج کا بھنگی بھی زینجرز کے جوانوں سے زیادہ مراعات اور سہولتوں کا حامل ہوتا ہے۔ ہمارا ایک جوان رینجرز میں بھرتی تھا ایک حادثے میں اس کی ٹانگ شدید زخمی ہوئی آپریشن کے دوران اس کا تھائی مسل ضائع ہوگیا اسے آرمی لا کے تحت ان فٹ فار ایکٹ سروس دے کر پنشن دے دی گئی مگر اسے معذوری پنشن اور سول ملازمت نہیں دی گئی۔ اس نے ہم سے بہت سی درخواستیں لکھوائیں مگر جنرل ضیاء کے سوا کسی اور نے اس کی درخواست پر کارروائی نہ کی۔ عمران خان کا فرمان ہے کہ فوج ان کے پیج پر آگئی ہے سو ہم وزیر اعظم سے استدعا کریں گے کہ وہ ملک سے بے روزگاری کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں تو سیکورٹی گارڈ کی ملازمت اور دیگر محکموں میں فوج کو جو کوٹا دیا گیا ہے اسے ختم کردیں۔ ہم جانتے ہیں کہ وزیر اعظم کوئی بھی ہو وہ آرمی قیادت کے سامنے بھیگی بلی بن جاتا ہے۔
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور نے اس نیک کام کی ابتدا کردی ہے خدا کرے دوسرے ادارے بھی اس کے نقش قدم پر چلیں۔ رینجرز کے ریٹارڈ ملازمین کو بھرتی کررہی ہے۔ اور سیکورٹی گارڈ کورس جنہوں نے مختلف تصدیق شدہ محکموں سے لیا ہے انہیں بھی سیکورٹی گارڈ بھرتی کیا جار ہا ہے۔ کبھی کبھی تو یقین ہونے لگتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان شاعری کے بہت دل دادہ ہیں اور خاص کر انور شعور سے کچھ زیادہ ہی متاثر ہیں۔ تب ہی موصوف نے انور شعور کے اس شعر کو سیاسی منشور بنا لیا ہے۔ مطمئن لوگ کچھ نہیں کرتے آدمی غیر مطمئن اچھا۔ خان صاحب کو غیر مطمئن لوگ اچھے لگتے ہیں وہ عوام کو غیر مطمئن ہی دیکھا چاہتے ہیں۔ ہمیں توقع تو نہیں کہ آرمی چیف ہماری استدعا کو شرف قبولیت بخشیں گئیں۔ مگر التجا کرنے میں کیا حرج ہے۔ آرمی ایکٹ کے تحت مستعفی ہونے والے شخص کو معذوری پنشن دلوائیں۔ تو اس کی نسلیں آپ کی نسلوں کے لیے تاحیات دعا گو رہیں گی۔