سندھ کا بجٹ اور حقائق

303

 

سندھ حکومت آج کل عدالت عظمیٰ کے نشانے پر ہے، چیف جسٹس نے بجٹ کے بارے میں تبصرہ کیا ہے کہ اعداد وشمار کی جادوگری کی جاتی ہے اور اگلے ہی دن سندھ حکومت نے 14 کھرب سے زائد کا بجٹ پیش کردیا۔ وفاق کے مقابلے میں تنخواہوں میں 20 فی صد یعنی دگنا اضافہ کردیا، جب کہ کم از کم ماہانہ اجرت میں اضافہ کرکے 25 ہزار روپے ماہانہ مقرر کردی ہے۔ پنشن میں بھی دس فی صد اضافہ کیا ہے۔ اگرچہ مہنگائی کے مقابلے میں یہ اضافہ بہت کم ہے لیکن اس جانب پیش رفت تو ہے اور اگر مسلسل اضافہ ہوتا رہے تو سرکاری ملازمین اور پنشنرز کے لیے آسانیاں ہوجائیں گی۔ تاہم بعض چیزوں میں جن کا شور بہت ہوتا ہے ان کے لیے جو رقم مختص کی گئی ہے اس تناظر میں وہ کام ہوتے نظر نہیں آتے۔ مثال کے طور پر سندھ میں ترقیاتی کاموں کے لیے 222 ارب روپے مقرر کیے گئے ہیں لیکن سندھ کی حالت دیکھ کر نہیں لگتا کہ یہاں سو ارب کے ترقیاتی کام بھی ہوئے ہیں اور اگر امن وامان کو دیکھا جائے تو اس کے لیے 120 ارب روپے رکھے گئے ہیں یقینا یہ رقم گزشتہ کے مقابلے میں بڑھ گئی لیکن کیا امن وامان ایسا ہے کہ اس پر 50 ارب بھی خرچ ہوتے نظر آئے ہیں۔ جبکہ صوبے میں امن وامان کے لیے پولیس کے علاوہ کئی عشروں سے رینجرز موجود ہیں اور کبھی کبھی فوج کی خدمات بھی لی گئی پھر بھی امن وامان کا حال ٹھیک نہیں۔ اب 120 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ رقم بھی ٹھکانے لگائی جائے گی۔ لوگ شہروں دیہات کسی جگہ امن وامان کے ساتھ نہیں ہیں۔ اسی طرح حکومت نے صحت کے لیے 172 ارب روپے رکھے ہیں اور صحت کے معاملے میں بھی صوبے کا حال بہت برا ہے۔ کورونا کے علاوہ بھی عمومی صحت کا معاملہ اس قدر خراب ہے کہ اسپتالوں میں ڈاکٹر نہیں، عملہ تربیت یافتہ نہیں، دوائیں غائب، صحت کا محکمہ شدید کرپشن کا شکار ہے۔ کتے کے کاٹے کی ویکسین دستیاب نہیں۔ لوگ مر رہے ہیں، کتے دندناتے پھر رہے ہیں۔ ویسے تو ہر محکمہ ہی کرپشن کا شکار ہے لیکن صحت اور تعلیم تو بہت زیادہ تباہ حال ہیں اسکولوں میں گدھے گھوڑے باندھے جاتے ہیں، وزیروں کی اوطاق بنی ہوں تو ان اسکولوں سے گدھے ہی نکل کر اسمبلیوں اور حکومتوں میں پہنچتے ہیں۔ کراچی کا مسئلہ بھی بہت زیادہ زیر بحث رہا ہے۔ صوبائی حکومت کو بھی کراچی کی فکر ستائے جارہی ہے اور وفاق کو بھی کراچی کا درد ہوتا رہتا ہے۔ اور کراچی ہے کہ کھنڈر بنتا جارہا ہے۔ وفاق نے 11 سو ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا تھا اس پر صوبائی وزیراعلیٰ نے تبصرہ کیا تھا کہ ایک سال گزر گیا 11 روپے بھی نہیں دیے گئے۔ بہرحال کراچی کے لیے صرف 109 ارب روپے مختص کرکے حکومت سندھ نے کمال کردیا ہے جب کہ کراچی کے معاملے میں خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ اس شہر سے ہمدردی کا دعویٰ سب کرتے ہیں جب بھی الیکشن ہوں گے تمام پارٹیاں اس شہر کی ہمدرد بن کر آجائیں گی۔ لیکن کراچی کو جب بھی کچھ دیا گیا وہ جماعت اسلامی کی جانب سے دیا گیا۔ عبدالستار افغانی نے دو مرتبہ کراچی کے میئر کی حیثیت سے خدمت کی اور کراچی کی صورت بدل دی۔ پھر سلیکٹرز ایم کیو ایم کو لے کر آئے اور عبدالستار افغانی اور ان کی ٹیم کا سارا کام غارت کردیا۔ 1992ء کے تقریباً 9 برس بعد بلدیاتی انتخابات ہوئے تو پھر اہل کراچی نے نعمت اللہ خان کی صورت میں اپنی قسمت بدلنے کا فیصلہ کیا اور نعمت اللہ خان عملاً کراچی کے لیے نعمت ثابت ہوئے۔ ان کے دور میں کچرا بنا ہوا کراچی چمکنے لگا۔ وہ گئے تو کراچی کو پارکوں، اسکولوں، کالجوں، اسپتالوں، سڑکوں اور روشنیوں کا تحفہ دے کر گئے تھے لیکن پھر سلیکٹرز نے اپنی پسندیدہ ایم کیو ایم کو کراچی پر مسلط کردیا اور نعمت اللہ خان کی ساری محنت کو بڑے کمال کے ساتھ مصطفی کمال نے تباہ کردیا۔ باقی رہا سہا کام وسیم اختر کے دور میں ہوگیا۔ اب کراچی پھر اس حال کو بلکہ پہلے سے بھی زیادہ تباہ حالی کو پہنچ چکا ہے۔ وفاق 11 سو ارب روپے کا اعلان کرکے چلا گیا۔ سندھ کے بجٹ میںآٹے میں نمک کے برابر رقم بھی نہیں رکھی گئی اور وزیراعلیٰ سندھ بجٹ کے اگلے روز فرماتے ہیں کہ کراچی کی ترقی کے لیے 3 ہزارا ارب روپے درکار ہیں۔ وفاق اور عالمی ڈونر تعاون کریں۔ گویا وزیراعلیٰ نے بھی وفاق اور عالمی اداروں کے سامنے کشکول پھیلادیا۔ وہ آئی ایم ایف کا بجٹ بنانے پر وفاق پر تنقید کرتے ہیں اور خود اپنی ذمے داری ادا کرنے کے بجائے دوسروں سے رقم طلب کررہے ہیں۔ کراچی سے وصول کرکے وفاق کو 70 فیصد ٹیکس دیا جاتا ہے لیکن وفاق معمول کے فنڈز بھی کراچی کو نہیں دیتا اور سندھ کو تو 85 فیصد ٹیکس کراچی دیتا ہے۔ وزیراعلیٰ اپنی ترجیحات تو درست کریںانہوں نے کراچی کو کیا دیا۔ سندھ حکومت جعلی ڈومیسائل پر غیر قانونی تقریر کر رہی ہے۔ کراچی کے جوانوں کا حق مار رہی ہے۔ اعتراض کرو تو تعصب کا الزام لگا دیا جاتا ہے حالانکہ کھلا تعصب تو حکومت سندھ برت رہی ہے۔ کراچی کے معاملے میں وفاق کو بھی اپنا حصہ ادا کرنا چاہیے لیکن کراچی کا مسئلہ فنڈز سے زیادہ دیانتدار قیادت ہے اور وہ صرف جماعت اسلامی کے پاس ہے۔