طاقتور کے خلاف کارروائی کہاں ہو رہی ہے؟

448

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ طاقتور کو قانون کے دائرے میں لانے ہی سے امن قائم ہوتا ہے۔ میرا کوئی رشتے دار وزیر نہیں جو بھی قانون کی خلاف ورزی کرے پولیس اس پر ہاتھ ڈالے۔ انہوں نے اسلام آباد میں ایگل اسکواڈ کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں کہا کہ میں بھی قانون توڑوں تو میرے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔ کوئی مقدس گائے نہیں ہے۔ وزیراعظم نے اصولی طور پر درست بات کی ہے۔ قانون کا درست استعمال اور بلا امتیاز استعمال ہی امن کا ضامن ہے لیکن کیا جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں وہ درست ہے؟ ایسا تو نہیں ہے طاقتور سے مراد کوئی جرنیل، کوئی وزیر یا گورنر نہیں ایک معمولی رکن اسمبلی، کسی وزیر کا بیٹا بھتیجا یا کوئی رشتے دار۔ کچھ نہیں تو پارٹی کا عہدیدار گاڑی پر تیر، پتنگ، بلے یا شیر کا نشان لگا کر ٹریفک سگنل توڑتا ہے، کانسٹیبلوں کی پٹائی کرتا ہے۔ سڑک پر اپنے آگے جانے والی گاڑی کو ٹکر مار کر ہٹایا جاتا ہے۔ پولیس کھڑی تماشا دیکھتی ہے۔ اس میں اتنی ہمت ہی نہیں کہ کارروائی کر سکے ۔ سیاہ شیشوں والی گاڑیاں دندناتی پھرتی ہیں۔ بغیر وردی کے مسلح گارڈ ڈبل کیبن گاڑی یا پچھلے حصے میں خونخوار نظروں سے معمولی عوام کو گھورتے اور دھمکاتے ہیں ایسے میں کوئی پولیس افسر کارروائی کر دے تو اس کو 24 گھنٹے کے اندر تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ نے چند ماہ کے دوران تین آئی جی تبدیل کر ڈالے۔ کیا اس لیے تبدیل کیے کہ وہ طاقتور کے خلاف کارروائی نہیں کر رہے تھے۔ نہیں بلکہ اس لیے کیے گئے کہ ان سے غلطی ہو گئی کسی طاقتور کے خلاف کارروائی کرنے کی اور طاقتور بھی وہ جن کا تعلق کسی نہ کسی طرح وزیراعظم سے نکلتا تھا۔ وزیراعظم جو کہہ رہے ہیں پورے پاکستان میں کہیں بھی ایسا نہیں ہو رہا۔ ایسا ہوتا تو آدھی کابینہ اندر ہوتی۔ہر ایک کے خلاف کوئی نہ کوئی مقدمہ ہے۔ گویا وزیر بننے کے لیے یہ ضروری ہے۔