وادئِ موت، خوبصورت مگر جان لیوا

395

امریکا: وادئِ موت کی ناقابلِ برداشت گرمی نے کئی لوگوں کو ہلاک کیا ہے۔ اور آج بھی جو لوگ اس وادی کی سیر کرنے جاتے ہیں اور احتیاط نہیں برتتے، وہ بھی اس کی تپش کو سہہ نہیں پاتے۔

وادئِ موت (Death valley) سفاک قدرت کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔ یہ دنیا کا انتہائی گرم ترین علاقہ ہے۔ یہاں کا درجہ حرارت 55ٰ سینٹی گریڈ سے بھی زیادہ ہوجاتا ہے۔ اس میں متعدد قدیم آتش فشاں پہاڑوں کے آثار موجود ہیں اور ماضی بعید میں زبر دست دھماکے بھی ہوچکے ہیں۔

اس وادی کی کئی چٹانوں پر لکیریں کھدی ہوئی ہیں جو صاف ظاہر کرتی ہیں کہ یہ علاقہ کئی ہزاروں سال پہلے زیرِ آب رہا ہوگا۔ وادی کا بیشتر حصہ چپٹا اور انتہائی خشک ہے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ امریکا کا سب سے خشک ترین علاقہ ہے۔ کچھ علاقوں میں زمین پر نمک کے سوا کچھ نہیں ہے۔ نمکیات کی زیادتی کی وجہ سے یہاں کچھ بھی نہیں اُگ سکتا۔

اس علاقے کا نام 1849 میں ایک عورت نے رکھا تھا۔ اس وقت کیلیفورنیا میں سونے کی دریافت ہوئی تھی۔ ملک کے دوسرے حصوں سے ہزاروں افراد سونے کی لالچ میں کیلیفورنیا آئے اور سونے کی کان کنی کے علاقوں کا سفر کیا۔ ہر کوئی سونے کی جگہ تلاش کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانا چاہتا تھا۔

اور کئی لوگوں نے اسی جلد بازی اور لالچ میں غلط فیصلے کیے۔ کیلیفورنیا پہنچنے کی کوشش میں ایک گروہ نے اولڈ اسپین ٹریل نامی راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا اور کچھ ہی عرصے میں یہ گروہ وادئِ موت پہنچ گیا۔ انہیں یہاں کی تپش اور پانی کی قلت کا اندازہ نہیں تھا۔ ان کے پاس مویشی تو تھے لیکن پیڑ پودوں کی کمی کی وجہ سے وہ بھی مرنے لگے۔

یہ گروہ وادئِ موت کی جھلستی آب و ہوا سے مکمل لاعلم تھا۔ یہ لوگ جو کھانا اپنے ساتھ لایا تھا وہ بھی ختم ہونے لگا۔

زندہ رہنے کے لئے انہوں نے کھانے کے لئے اپنے جانوروں کو مار ڈالا اور وادی سے نکلنا شروع کر دیا اس دوران کچھ لوگ گرمی، پیاس، بھوک برداشت نہ کرسکے اور مرنے لگے۔ وادی سے نکلنے والے لوگوں میں ایک عورت نے پیچھے مڑ کر وادی کو دیکھا اور کہا ، “الوداع ، موت کی وادی۔” وہ دن ہے اور آج کا دن یہ نام کبھی نہیں بدلا۔