برطانیہ اورپاک بھارت ثالثی پرانے کھلاڑی کا نیا کردار؟ – سید عارف بہار

398

اسلام آباد میں تعینات برطانوی ہائی کمشنر الیگزینڈر ایونزکی پرویزمشرف دور کے مشیر قومی سلامتی طارق عزیز کے ساتھ ملاقات کی خبریں آئی ہیں۔ اس ملاقات کی تفصیل طارق عزیز کے ذرائع سے باہر آئی ہے جس کے مطابق برطانیہ نے پاک بھارت کشیدگی ختم کرنے کے لیے دوبارہ سرگرم ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ برطانوی قائم مقام ہائی کمشنر نے طارق عزیز سے پرویزمشرف دور میں بھارت سے تعلقات کی بہتری کے لیے اُٹھائے گئے اقدامات پر بریفنگ لی۔ ہائی کمشنر نے اعتراف کیا کہ پرویزمشرف دور میں پاک بھارت تعلقات میں بہتری آئی تھی کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان مسئلہ کشمیر پر بات چیت شروع ہوگئی تھی۔ ملاقات میں طارق عزیز نے برطانوی سفارت کار کو بتایا کہ کشمیر پر بات چیت کو یقینی بنانے کے لیے اعتماد سازی کے کئی اقدامات اُٹھائے گئے تھے۔ کانگریس حکومت کے قومی سلامتی کے مشیروں ایس کے لامبا اور برجیش مشرا کے ساتھ ان کی بات چیت چل رہی تھی، جس کے بعد مظفرآباد سری نگر بس سروس کا آغاز ہوا تھا، اور سیالکوٹ جموں بس سروس کی تجویز بھی زیر غور تھی۔ تجارتی معاملات پر بھی بات چیت چل رہی تھی، تجارتی آئٹمز کی فہرست تین سو سے بڑھاکر پچیس ہزار کی گئی تھی۔ اس سے پہلے 2003ء میں دونوں ملکوں میں جنگ بندی کا معاہدہ بھی ہوا تھا۔

برطانوی سفارت کار نے تسلیم کیا کہ وہ طارق عزیز کے تجربات سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں اور اس ملاقات کی رپورٹ برطانوی حکومت کو ارسال کی جائے گی۔

برطانوی حکومت کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کے آغاز اور پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے لیے سرگرم ہونا خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ برطانیہ طویل خاموشی کے بعد پرویزمشرف من موہن پیس پروسیس کے احیاء کے لیے سرگرم ہورہا ہے۔ ماضی کے اس پیس پروسیس یا پیش رفت میں برطانیہ کا پسِ پردہ کردار تھا۔ برطانیہ نے کشمیر کے اندر حالات کو بدلنے کے لیے حریت پسندوں کو سیز فائر پر آمادہ کرنے اور سابق عسکری کمانڈروں کو ایک غیر عسکری رول دینے کے لیے خاصا کام کیا تھا۔ برطانیہ نے کشمیری قیادت اور انٹیلی جنشیا کے سامنے شمالی آئر ینڈ کے پیس پروسیس کا ماڈل بھی رکھا تھا۔ شمالی آئرلینڈ میں آئرش ری پبلکن آرمی نے ہتھیار چھوڑ کر برطانیہ کے ساتھ پاورگیم میں شریک ہونے کا راستہ اختیار کیا تھا۔ ری پبلک آف آئرلینڈ نے خود کو اس تنازعے سے بتدریج الگ کرکے آئرش ری پبلکن آرمی اور برطانوی حکومت کو ایک معاہدے اور پیس پروسیس میں آگے بڑھنے کا راستہ دیا تھا۔

شمالی آئرلینڈ کے اس پیس پروسیس کا جائزہ لے کراس تجربے کو کشمیر میں دہرانے کے امکانات کا تحقیقی انداز میں جائزہ لینے کے لیے کنٹرول لائن کے دونوں جانب کے کشمیریوں کے ایک گروپ کے ساتھ مجھے بھی شمالی آئرلینڈ کے دارالحکومت بلفاسٹ کے دورے کا موقع ملا تھا۔ تھوڑے سے رد وبدل کے بعد اس فارمولے کو کشمیر پر لاگو کیا جا سکتا تھا، مگر بھارت یہاں بھی برطانوی وزیر خارجہ کی طرح کوئی بڑا اعلان کرنے پر تیار نہ ہوا۔ برطانوی وزیر خارجہ نے یہ کہہ کر ’’گڈ فرائیڈے ایگریمنٹ‘‘ کی راہ ہموار کی تھی کہ ان کے ملک کے شمالی آئرلینڈ میں کوئی سامراجی یا توسیع پسندانہ مقاصد نہیں۔ پاک بھارت تعلقات بگڑ جانے کے بعد برطانیہ بھی ’’دیکھو اور انتظار کرو‘‘کی حکمتِ عملی اپناتے ہوئے اس معاملے سے قریب قریب لاتعلق ہوکر رہ گیا۔ 5 اگست2019ء کو کشمیر کی خصوصی شناخت کے خاتمے کے بعد پاکستان اور بھارت میں کشیدگی کا ایک نیا دور شروع ہوا تو اس دوران برطانوی حکومت نے غیر جانب داری کا کردار چنا، مگر برطانیہ کی طرف سے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بات کی جاتی رہی۔ برطانیہ میں پارلیمنٹ کی سطح پر کشمیر کی صورتِ حال پر ہونے والی بحث بھی جاری رہی۔ پانچ اگست کے اقدام کے خلاف برطانیہ میں کشمیریوں کے دریائی جلوسوں نے بھارت کو برطانیہ سے کبیدہ خاطر کیا تھا۔ اس کا ثبوت ایک بھارتی دانشور راہول رائے چودھری کا ایک سال قبل شائع ہونے والا مضمون ہے۔ ’’برطانیہ بھارت تعلقات میں کشمیر فیکٹر‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے اس مضمون کا ایک جملہ چونکا دینے والا تھا کہ برطانیہ اور بھارت کے تعلقات میں مضبوطی آرہی ہے مگر کشمیر کا مسئلہ ان تعلقات کی راہ کی ایک بڑی مشکل ہے۔ اس کے لیے Elephant in the room یعنی ’’کمرے میں ہاتھی‘‘کی اصطلاح استعمال کی گئی تھی۔ گویا کہ کشمیر ایک ایسا مسئلہ ہے جس کو نظرانداز کرنا برطانیہ کے لیے ممکن ہی نہیں۔ اسی مضمون میں کہا گیا تھا کہ پانچ اگست کے بعد بھارت کی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کو شک ہے کہ برطانوی حکومت کسی نہ کسی انداز سے پاکستان کے مؤقف کو تقویت پہنچا رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ برطانیہ میں کشمیری اور سکھ کمیونٹی کی سرگرمیاں بھی ہوسکتی ہیں۔ جبکہ پاکستان کا شکوہ رہا ہے کہ برطانیہ نے مسئلہ کشمیر کے تاریخی عمل کا ایک مرکزی کردار ہونے کے باوجود بھارتی اقدام کی مخالفت اور مزاحمت نہیں کی۔

پرویزمشرف اور من موہن پیس پروسیس میں امریکہ سمیت یورپی ملکوں کے ساتھ ساتھ برطانیہ کا پسِ پردہ کردار بھی کم اہم نہیں تھا۔ اس پیس پروسیس کی بڑی خامی یہ تھی کہ ابھی کشمیر کے سیاسی پہلو پر بات چیت شروع نہیں ہوئی تھی کہ مذاکرات کے تار ٹوٹ گئے تھے۔ دوسری یہ کہ سارا عمل وزارتِ خارجہ کی فائلوں اور جکڑ بندیوں سے بالا بالا جاری تھا جس سے کئی حلقوں میں شکوک وشبہات جنم لے رہے تھے۔ سرکاری چینل سے باہر جاری رہنے والے عمل کی وجہ سے جب یہ ڈی ریل ہوا تو کوئی اسے بچانے اور اس کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے آگے نہیں بڑھا، اور پیس پروسیس کی لاش مدتوں بے گور وکفن پڑی رہی۔ سرکاری فائلوں اور میزوں پر طے ہونے والی چیزیں شملہ معاہدے کی طرح ناپسندیدہ ہی کیوں نہ ہوں، مگر ان کو حکومت اور خارجہ وزارتیں اونر شپ دینے پر مجبور ہوتی ہیں، جبکہ نامعلوم اور پسِ پردہ ٹریک ٹو ڈپلومیسی لاوارث ہوتی ہے۔

طارق عزیز جنرل پرویزمشرف کے پرنسپل سیکرٹری اور قومی سلامتی کے مشیر ہونے کے ساتھ ان کے کلاس فیلو اور گلاس فیلو کے طور پر بھی مشہور تھے۔ انہیں پرویزمشرف حکومت کی بھارت اور کشمیر پالیسی کا حکمت کار بھی سمجھا جاتا تھا۔ ان مختلف تحقیقی رپورٹس کا نچوڑ پرویزمشرف کے چار نکاتی فارمولے کی صورت میں سامنے آیا تھا جو کچھ یوں تھا:

٭کشمیر کے تمام حصوں کی ڈی ملٹرائزیشن، ٭سرحدوں کی تبدیلی کے بغیر خطوں میں آمدورفت کی بحالی، ٭اقتدارِ اعلیٰ کے بغیر سیلف گورننس، اور ٭پاکستان، بھارت اور کشمیری قیادت کا خطے پر مشترکہ کنٹرول یا نگرانی۔

طارق عزیز کے ماضی کے ان تجربات اور اس بصیرت سے فائدہ اُٹھانے کا مطلب یہ ہے کہ برطانیہ ایک بار پھر پرویزمشرف من موہن پیس پروسیس کے ٹوٹے تار جوڑ نے پر آمادہ اور مائل ہو رہا ہے۔برطانیہ کی سرگرمی خلیجی ملکوں جیسی ثالثی نہیں، کیونکہ برطانیہ ان معاملات میں ایک تجربہ کار طاقت کی حیثیت اور ماضی رکھتا ہے۔