بنگلا دیش کی معاشی ترقی

573

میرے ایک دوست تین نسلوں سے کاروباری ہیں۔ کراچی میں بزنس کرتے ہیں۔ والد احمد آباد (گجرات) کے چھوٹے سے گاؤں میں دکان چلاتے تھے۔ خاندان پاکستان بننے کے بعد کراچی آ گیا والد کاروبار کے سلسلے میں چٹاگانگ گئے، مشرقی پاکستان میں فیکٹریاں لگانا شروع کیں اور یہ 17 فیکٹریوں کے مالک بن گئے، 1971ء میں فسادات شروع ہو گئے، یہ لوگ جان بچا کر بھاگے اور لاشیں پھلانگ کر واپس کراچی پہنچے، نئے سرے سے کام شروع کیا اور ایک بار پھر قدموں پر کھڑے ہو گئے، یہ اب ملک کے چند بڑے تاجروں میں شمار ہوتے ہیں اور چار ارب روپے سالانہ ٹیکس دیتے ہیں۔
چند دن قبل میرے پاس تشریف لائے، گفتگو کے دوران بنگلا دیش کا تذکرہ شروع ہوا تو مجھے پہلی مرتبہ پتا چلا یہ سال میں تین چار مرتبہ بنگلا دیش جاتے ہیں، میں نے وجہ پوچھی، تو مسکرا کر بولے میرا ایک بھائی اور والدہ دونوں چٹاگانگ میں رہتی ہیں، میں حیران ہو گیا، انہوں نے بتایا کہ ہم چٹاگانگ میں سب سے بڑے انڈسٹریل گروپ تھے، بنگلا دیش بننے کے بعد ہمارا سب کچھ مشرقی پاکستان میں رہ گیا تھا، بنگلا دیش بننے کے بعد شیخ مجیب الرحمن نے میرے والد کو ڈھاکا بلوایا اور دوبارہ کام شروع کرنے کی درخواست کی، ہمارے والد انکار نہ کر سکے چناں چہ ہم نے وہاں تھوڑا تھوڑا کام شروع کر دیا، آج بھی میری والدہ اور ایک بھائی چٹاگانگ میں ہیں، میں ان سے ملنے جاتا رہتا ہوں، میں نے ان سے پوچھا، آپ کو 1970ء اور آج کے چٹاگانگ میں کیا فرق محسوس ہوتا ہے، ہنس کر بولے ’’ہم اس زمانے میں شہر کی سڑکوں پر کرکٹ کھیلا کرتے تھے لیکن آج جب میں صبح ائر پورٹ کے لیے نکلتا ہوں تو میلوں تک سر ہی سر ہوتے ہیں اور ڈرائیور دس منٹ کا سفر تین گھنٹوں میں طے کرتا ہے، میں نے پوچھا ’’کیا یہ فرق آبادی کی وجہ سے ہے‘‘ وہ بولے ’’ہرگز نہیں، چٹاگانگ میں دراصل ایکسپورٹ پروسیسنگ زون ہے، اس میں 180 بین الاقوامی فیکٹریاں ہیں، یہ تمام لوگ کام کے لیے صبح وہاں جاتے ہیں چناں چہ سڑکوں پر انسانوں کا سیلاب دکھائی دیتا ہے اور اس سیلاب کا 90 فی صد عورتوں پر مشتمل ہوتا ہے، بنگلا دیش کا اصل کمال خواتین ہیں، آپ وہاں کسی طرف نکل جائیں، آپ کو وہاں عورتیں کام کرتی دکھائی دیں گی چناں چہ میں جب بھی چٹاگانگ جاتا ہوں، مجھے یہ فرق حیران کر دیتا ہے‘‘۔
بنگالیوں نے 1971ء کے بعد خواتین کو ایکٹو لائف میں شامل کرنا شروع کر دیا تھا، گرامین بینک اور براک جیسی آرگنائزیشنوں نے مردوں کے بجائے عورتوں کو قرضے دینا شروع کر دیے اور یوں خواتین آہستہ آہستہ مردوں سے آگے نکلتی چلی گئیں یہاں تک کہ آج 82 فی صد جوان بنگالی خواتین کام کرتی ہیں، آپ بنگلا دیش کی کسی منڈی، شاپنگ سینٹر، آفس یا پھر فیکٹری میں چلے جائیں آپ کو وہاں ہر طرف خواتین نظر آئیں گی۔
یہ بنگلا دیش کے معاشی ماڈل کا پہلا حصہ ہے، آپ اب اس ماڈل کا دوسرا اور تیسرا حصہ بھی دیکھیے، 1971ء تک بنگلا دیش کی معیشت ’’امپورٹ بیسڈ‘‘ تھی، کھانے کا سامان تک باہر سے آتا تھا، بنگلا دیش نے آہستہ آہستہ اپنی معیشت کو درامدات سے برامدات میں تبدیل کر دیا یہاں تک کہ 2018ء میں بنگلا دیش کی برامدات 45 بلین ڈالرز تھیں، اس سال 47 بلین تک پہنچ چکی ہیں اور یہ 2021ء میں اپنی پچاسویں سالگرہ 50 بلین ڈالرز کی برامدات کے ساتھ منائیں گے اور بنگلا دیش نے یہ فیصلہ آج سے دس سال پہلے کیا۔
بنگالی حکومت نے 2011ء میں اعلان کیا تھا ہم کو پچاسویں سالگرہ تک (2021ء) پچاس بلین ڈالرز کی ایکسپورٹس کا ہدف حاصل کرنا ہے اور یہ تقریباً اس ہدف کے قریب پہنچ چکے ہیں، اس کا جی ڈی پی بھی 348 بلین ڈالرز ہو چکا ہے اورنمو 7 اعشاریہ 9 فی صد ہے، یہ اس لحاظ سے دنیا کی 39ویں معیشت بن چکا ہے، اس کے مقابلے میں ہماری نمو منفی 0.4 ہو چکی ہے، جی ڈی پی 280 بلین ڈالرز ہے اور ہم 22 کروڑ لوگ صرف 20 بلین ڈالرز کی برامدات کرتے ہیں۔
آپ یہ حقیقت بھی ملاحظہ کیجیے بنگلا دیش میں کاٹن پیدا نہیں ہوتی لیکن یہ کپاس درامد کر کے 20 بلین ڈالرز کا تیار کپڑا، 19 بلین ڈالرز کا دھاگا، سوا بلین ڈالرز کے جوتے (جاگرز) اور ایک بلین ڈالرز کی کاٹن ایسیسریز ایکسپورٹ کرتا ہے جب کہ کاغذ اور گرم کپڑے کی ایکسپورٹ 603 ملین ڈالرز، مچھلی 532 ملین ڈالرز، چمڑا 368 ملین ڈالرز، ٹوپیاں 332 ملین ڈالرز، کھالیں 140 ملین ڈالرز اور پلاسٹک کی مصنوعات کی برامدات 113 ملین ڈالر ہے۔ یہ بڑی تیزی سے دنیا کے دس بڑے ایکسپورٹرز کی فہرست کی طرف بھی بڑھ رہا ہے اور بنگلا دیش کے فارن ایکس چینج ریزروز بھی39 بلین ڈالرزہیں جب کہ ہمارے ریزروز 19بلین ڈالرز ہیں۔
بنگلا دیشی ٹکا 1971ء میں پاکستان کے ایک روپے کے چار ٹکا آتے تھے، آج ایک ٹکا پاکستان کے اڑھائی روپے کے برابر ہے، آج بھارتی اور بنگلا دیشی کرنسی برابر ہو چکی ہیں اور آپ یہ بھی ذہن میں رکھیں بنگلا دیش کی معیشت میں کوئی کولیشن سپورٹ فنڈ، وار آن ٹیرر اور افغان جہاد کے پیسے شامل نہیں ہیں، یہ ان کے ہاتھوں کی کمائی ہے جب کہ ہم امریکا، عربوں اور چین کے سب سے بڑے جنگی سپورٹر ہونے کے باوجود کاسۂ گدائی لے کر گلی گلی پھر رہے ہیں۔
کیا یہ بنگالی وہی لوگ نہیں ہیں ہم جن کے ساتھ ہاتھ تک ملانے کے روادار نہیں تھے، یہ وہی لوگ نہیں ہیں جنہیں ہم چھوٹے قد، تنگ چھاتیوں اور کالی رنگت کی وجہ سے فوج اور پولیس میں بھرتی نہیں کرتے تھے؟ ہم جنہیں ویٹرز اور خانساموں سے اوپر درجہ دینے کے لیے تیار نہیں تھے، ہم جنہیں کنٹرول کرنے کے لیے مغربی پاکستان سے میجر جنرل اور چیف سیکرٹری بھجوا دیتے تھے اور وہ وائسرائے بن کر پورے مشرقی پاکستان کو کنٹرول کرتے تھے۔
ہم جن کے بارے میں کہتے تھے بنگالیوں کو باتھ رومز اور ٹوائلٹس کی کوئی ضرورت نہیں، یہ سرکنڈوں کے پیچھے بیٹھ کر سب کچھ کر لیتے ہیں اور ہم جن کے لیڈروں کو دھوتی والے بھی کہا کرتے تھے اور انہیں اٹھا کر جیلوں میں پھینک دیتے تھے، ہم 1971ء تک ان کے بارے میں کہا کرتے تھے یہ ہم سے الگ رہ کر ایک سال نہیں گزار سکیں گے اور یہ روتے ہوئے ہمارے پاس آئیں گے لیکن آج 49 سال بعد بنگلا دیشی کہاں ہیں اور ہم کہاں ہیں؟ ہم بہادر، دانشور، چالاک اور خوب صورت ہونے کے باوجود نیچے سے نیچے جا رہے ہیں جب کہ بنگالی بدصورت، بے وقوف، نالائق اور بزدل (یہ ہماری اشرافیہ کہا کرتی تھی، میری رائے بنگالیوں کے بارے میں بالکل مختلف ہے) ہونے کے باوجود ترقی پر ترقی کرتے جا رہے ہیں۔
بنگلا دیش کی آبادی 1971ء میں ساڑھے چھ کروڑ تھی اور ہم چھ کروڑ تھے لیکن آج یہ ساڑھے سولہ کروڑ ہیں اور ہم 22کروڑ ہیں، ہماری شرح خواندگی73سال بعد 60فی صد اور بنگلا دیش کی49سال میں 74فی صد ہو گئی، ہم آج بھی مارشل لا کے خوف کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جب کہ بنگلا دیش میں ہر گزرتے دن کے ساتھ جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہو رہی ہیں۔ اور آپ المیے پر المیہ دیکھیے، کراچی کے وہ تاجر اور صنعت کار جو 1971ء میں جان بچا کر مغربی پاکستان آئے تھے وہ اب بنگلا دیش میں فیکٹریاں لگا رہے ہیں، یہ لوگ آج کے پاکستان سے بھاگ کر سابق پاکستان میں پناہ لے رہے ہیں، ان کی کرکٹ ٹیم بھی ہم سے بہتر ہو چکی ہے، یہ عدل وانصاف میں بھی ہم سے آگے ہیں، ان کی ٹیکس وصولی بھی ہم سے بہتر ہے اور سیاحت بھی، یہ جرائم میں بھی ہم سے بہت پیچھے ہیں، وہاں ہمارے مقابلے میں مذہبی رواداری بھی کہیں زیادہ ہے اور بنگلا دیش عالمی سطح پر بھی ہم سے بہت آگے نکل چکا ہے۔
او آئی سی ہمارے مقابلے میں ان کی بات زیادہ سنتی ہے اور یورپی یونین اور اقوام متحدہ بھی ان کو ہم سے زیادہ اہمیت دیتی ہے، کیوں؟ کیا ہم نے کبھی سوچا! آخر ہم میں کوئی نہ کوئی خامی تو ہو گی؟ ہماری اپروچ، ہمارے ماڈل میں کوئی نہ کوئی خرابی تو ہو گی جس کی وجہ سے ہم پیچھے جا رہے ہیں اور ’’کالے کلوٹے‘‘ بنگالیوں میں کچھ نہ کچھ تو ہوگا جس کی وجہ سے یہ 49 سال میں ہم سے آگے نکل گئے ہیں،کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہم کسی کونے میں بیٹھ کر ٹھنڈے دل ودماغ سے یہ سوچ سکیں، ہم اپنا محاسبہ کر سکیں، اگر وہ وقت اب بھی نہیں آیا تو پھر کب آئے گا؟ خدا کے لیے سوچیے۔