پیوٹن، بائیڈن ملاقات، امکانات اور خدشات؟

852

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے امریکی صدر جوبائیڈن کے ساتھ ملاقات سے قبل این بی سی کو ایک انٹرویو میں ان الزامات کو ’مضحکہ خیز‘ قرار دیا ہے کہ امریکا میں سائبر حملوں کے پیچھے روس ہے۔ روسی صدر کا کہنا ہے کہ جیل میں قید کریملن کے نقاد الیکسی ناولنی کے ساتھ کسی اور کے مقابلے میں بدتر سلوک نہیں کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی امریکا کو دھمکانے کے لیے بحر ِ اوقیانوس میں تاریخ کی سب بڑی بحری مشقوں کا آغاز ہو گیا ہے۔ روسی بحریہ کے ایڈمرل وکٹر کا کہنا ہے امریکی سمندروں میں ان مشقوں کا مقصد یہ ہے کہ ناٹو اجلاس کو بتایا جائے کہ روس کیا کر سکتا ہے۔ ان بحری مشقوں کو دو دن پہلے شروع کیا گیا اور پیوٹن بائیڈن ملا قات کے دوران یہ مشقیں جاری رکھی جائیں گی۔ روسی صدر نے یہ بھی کہا کہ وہ امریکا کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے سے متعلق بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ امریکی اور روسی صدور کے درمیان ملاقات کے ایجنڈے میں قیدیوں کے تبادلے سے متعلق بات چیت بھی شامل ہے۔
اس سلسلے میں دو رائے نہیں ہے کہ امریکا اور روس کے درمیان تنازعات کی ایک لمبی فہرست ہے۔ امریکی صدر جی سیون ممالک، یورپی یونین اور ناٹو کے اتحادیوں سے ملاقاتوں کے بعد روسی صدر سے ملاقات کریں گے۔ اس سلسلے میں بائیڈن کا کہنا ہے کہ وہ اپنے یورپی اتحادیوں کو اعتماد لے کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور یہ جمہوری اتحاد امریکا اور یورپ کے ساتھ ایشیائی جمہوری ممالک تک بھی پھیلانے کی کوشش جاری رہے گی۔ اس سلسلے میں امریکا بیلٹ اینڈ روڈ کے مقابل ایک منصوبہ بنا رہا ہے۔ اس منصوبے میں امریکا 240ارب ڈالر ز بجٹ کی منظوری دے چکا ہے اور جی 7ممالک اس منصوبے میں 400کھرب ڈالرز کی سرمایہ کاری کریں گے۔ امریکا کا تمام منصوبہ ابھی کاغذوں میں ہے۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے خبردار کیا ہے کہ ناٹو کو چین اور روس سے نئے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یقین دلایا کہ واشنگٹن کی جانب سے اتحادیوں کے ساتھ تعاون کی تجدید بھی کی جائے گی۔ جوبائیڈن کا کہنا تھا کہ ’گزشتہ برسوں کے دوران یورپ میں نئے چیلنجز کی موجودگی کو تسلیم کیا گیا ہے۔ روس اور چین وہ برتاؤ نہیں کر رہے جس کی ان سے توقع تھی۔ یہی وہ سوال ہے جو بڑی اہمیت کا حامل ہے 2001ء میں جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تھا تو اُس وقت چین اور روس دونوں امریکا کے ساتھ تھے اور روس تو پاکستان کا بھی دشمن تھا لیکن اب صوتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہے۔ اب چین نے افغان طالبان کی حکومت کو کابل میں کسی نہ کسی حد تک تسلیم بھی کرلیا اور ان سے معاہدے بھی شروع کر رکھے ہیں۔ یورپ روانگی سے قبل امریکی صدر جوبائیڈن نے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ صدر ولادیمیر پیوٹن اور چین پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ یورپ اور امریکا متحد اور مضبوط ہیں۔ چین نے سات ممالک کے گروپ (جی سیون) کو واضح طور پر متنبہ کیا ہے کہ وہ دن ختم ہو چکے جب چند ممالک کا گروپ دنیا کی قسمت کا فیصلہ کرتے تھے۔
برسلز میں ناٹو کے ہیڈ کوارٹر میں اجلاس کے لیے دیگر رہنماؤں کے ساتھ پہنچنے پر امریکی صدر نے اس بات پر زور دیا کہ یہ اتحاد امریکی سیکورٹی کے لیے ’انتہائی اہم‘ ہے۔ جوبائیڈن نے ایک بار پھر اس بات پر زور دیا کہ ناٹو معاہدے کی شق پانچ ایک ’مقدس ذمے داری‘ ہے۔ اس شق کے تحت ناٹو رکن ممالک ایک دوسرے کے دفاع کے ذمے دار ہیں۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس شق پر اعتراض کیا تھا۔ اے ایف پی کے مطابق ناٹو چیف جینز اسٹولٹن برگ نے امریکی صدر جوبائیڈن سے ہیڈ کوارٹر میں ملاقات کی۔ ناٹو چیف رواں ماہ کے شروع میں امریکا کا دورہ بھی کر چکے ہیں جہاں امریکی صدر اور انتظامیہ کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ افغانستان سے امریکی اور ناٹو افواج کا انخلا خطرناک ہے اس ملاقات کے بعد ناٹوکے چیف نے عالمی رہنماؤں کے ناٹو ہیڈ کوارٹر پہنچنے پر بتایا کہ ناٹو اجلاس کا مقصد نئی سرد جنگ میں داخل ہونا نہیں ہے۔ انہوں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ چین ہمارا مخالف نہیں، دشمن ہے۔ چین کی وجہ سے ہماری سلامتی کو درپیش خطرات سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔
رائٹرز کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے سینئر اہلکار کا کہنا تھا کہ ’امریکا جی سیون کے دوسرے قائدین پر زور دے گا کہ وہ چین میں زبردستی مشقت لیے جانے کے خلاف سخت ایکشن لیں۔ یہ سب کچھ صرف چین کے بیلٹ اینڈ روڈ کے مقابلے کے لیے نہیں بلکہ دنیا میں ہماری اقدار، معیار اور کاروبار کے انداز کو ظاہر کرے گا۔ چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ کھربوں ڈالر کا ہے جو صدر شی جن پنگ نے 2013 میں شروع کیا تھا اور جس میں ترقی اور سرمایہ کاری کے اقدامات شامل ہیں جو چین کو ایشیا سے یورپ اور آگے تک ملائے گا۔ سو سے زائد ممالک نے اس منصوبے کے لیے چین کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس میں ریلوے، اسپورٹس، بڑی سڑکوں اور دوسرے انفرا اسٹرکچر کی تعمیر کے منصوبے شامل ہیں۔ اعداد وشمار کے مطابق پچھلے سال کے وسط تک 3.7 کھرب ڈالر کے 2600 سے زائد منصوبے اس پروگرام میں شامل ہوئے حالانکہ چینی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ کورونا وبا کی وجہ سے 20 فی صد منصوبے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے مارچ 2021ء میں کہا تھا کہ جمہوری ممالک کو اپنی اسکیم تیار کرنی چاہیے انہوں نے برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن، جو جی سیون کے سربراہ اجلاس کی میزبانی کر رہے ہیں، کو تجویز دی ہے کہ جمہوری ممالک کو اس منصوبے کے مقابلے میں اپنی اسکیم تیار کرنی چاہیے۔ ان کے مطابق ’کل ہم جی سیون پارٹنرز کے ساتھ گلوبل انفرا اسٹرکچر پروگرام کا اعلان کرنے جا رہے ہیں جو صرف بیلٹ اینڈ روڈ کا ہی متبادل نہیں ہو گا‘۔
ناٹو، جی 7ممالک کے قیام کو ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے اور ان اتحادوں نے انسانوں پر بمباری کے سوا دنیا کو اور کچھ نہیں دیا اور اب امریکی صدر بائیڈن ناٹو، جی 7ممالک کے قائدین پر زور دیں گے کہ ’وہ واضح کریں کہ جبری مشقت انسانی وقار کے منافی اور چین کی غیر منصفانہ معاشی مسابقت کی ایک قابل مذمت مثال ہے اور دکھائیں کہ وہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سنجیدہ ہیں‘۔
ناٹو اعلامیے میں بتایاگیا کہ ’سنکیانگ میں جبری مشقت کو جی سیون ممالک بہت تشویش سے دیکھتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے ’’سنکیانگ‘‘ میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر پاکستان سمیت تمام اسلامی ممالک کی خاموشی لمحہ فکر اور قابلِ مذمت ہے لیکن یہ کہنا درست نہیں اس کا درد امریکا، یورپ اور ناٹو ممالک کو ہے لیکن عالم اسلام کو اس جانب ضرور توجہ دینا ہوگی، اگر ایسا نہ ہو اتو وہاں بھی طالبان ہی کو کچھ کر نا ہو گا۔ اس پوری صورتحال کی روشنی میں پیوٹن، بائیڈن ملاقات، امکانات اور خدشات پر ختم ہو جائے گی؟