منتخب ایوان کا جمہوری تماشا

212

حکومت اور حزب اختلاف نے بجٹ اجلاس جیسے سنجیدہ معاملے پر بحث و مباحثے کو قومی اسمبلی میں بدترین ہنگامہ آرائی میں تبدیل کردیا۔ قومی اسمبلی میں پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کی بدترین لڑائی ہوئی۔ قومی اسمبلی میں تازہ فساد بجٹ تقریر پر قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی تقریر کے موقع پر شور شرابے، احتجاج اور ہنگامہ آرائی سے شروع ہوا۔ حالاں کہ اس سلسلے میں اسپیکر قومی اسمبلی کے دفتر میں حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس کی کارروائی کے قواعد و ضوابط کے بارے میں ایک معاہدہ بھی ہوگیا تھا، لیکن دونوں فریقوں نے اس معاہدے پر عمل نہیں کیا۔ قومی اسمبلی میں اصل تصادم مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان ہوا، دیگر جماعتوں کے نمائندوں نے متحارب فریقوں کے درمیان بیچ بچائو کرانے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام ہوگئے۔ حکومتی موقف یہ ہے کہ حزب اختلاف اور مسلم لیگ (ن) قائد ایوان اور وزیراعظم پاکستان کو قومی اسمبلی میں خطاب کرنے نہیں دیتے اور انہوں نے وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر میں بھی ہنگامہ کیا۔ اس لیے ہم جیسے کو تیسا کی صورت میں جواب دیں گے اور قائد حزب اختلاف کو تقریر کرنے نہیں دیں گے حکومتی ارکان نے پہلے سے تیاری کی ہوئی تھی اور وہ سیٹیاں بھی لے کر آئے تھے اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی تقریر کے درمیان میں ہنگامہ آرائی اور شور شرابہ شروع کردیا جس نے مقننہ کے مقدس ایوان کو مچھلی بازار میں تبدیل کردیا۔ دونوں فریقوں کی جانب سے بدترین رویے کا اظہار کیا گیا۔ فحش گالیاں دی گئیں ناشائستہ نعرے لگائے گئے اور ایک دوسرے کے خلاف گالم گلوچ کرتے رہے۔ ایک دوسرے پر بھاری بھرکم بجٹ دستاویز کی کتابیں ماری گئیں۔ حفاظتی امور پر مامور قومی اسمبلی کے عملے سے تعلق رکھنے والے سارجنٹ ایٹ آرمز بھی زخمی ہوگئے۔ ایوان میں ایک حکومتی رکن نے باجا بجانا شروع کردیا۔ حکومتی ارکان کو سیٹیاں بھی دی گئیں تھیں اور حکومتی ارکان نے قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی تقریر میں زبردست رکاوٹ ڈالی۔ دونوں جماعتوں کے ارکان نے غیر مہذب نعرے لگائے اور ایک انداز میں مہذب گالیاں بھی دیں۔ دونوں اطراف سے ایک دوسرے کو مارنے کے لیے للکارا جاتا رہا، انتہائی نازیبا نعروں کے درمیان ایک دوسرے سے مقابلہ ہوتا رہا۔ اسپیکر قومی اسمبلی اجلاس کو معطل کرکے اپنے کمرے میں چلے گئے تو ایک دوسرے کے خلاف تصادم اور مارپیٹ میں اضافہ ہوگیا۔ پارلیمان کے اندر حکومت اور حزب اختلاف کے ارکان نے جس غیر ذمے دارانہ روش کا مظاہرہ کیا وہ بجٹ کا موقع تھا، تمام قومی امور میں معیشت کو مرکزی حیثیت حاصل ہوچکی ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتیں اس سے قبل ایک سے زائد بار حکومت کرچکی ہیں جب کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سابقہ جماعتوں کو ناکام، نااہل اور کرپٹ قرار دے کر تبدیلی کے نعرے کے ساتھ برسراقتدار آئی ہے لیکن اس کے دور حکومت میں حالات بہتر ہونے کے بجائے پے چیدگیوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اس واقعے سے ثابت ہوتا ہے کہ ہماری قیادت پر کتنی پست ذہنی سطح کے لوگ غالب ہوچکے ہیں۔ پارلیمان کے مقدس ایوان میں بحث مباحثہ باہمی تُوتکار، گالیوں، غیر مہذب نعروں اور باہمی تصادم میں بدل جانا قوم کے مستقبل سے مایوسی کا اظہار کرنا ہے۔ پاکستان کے منتخب نمائندوں نے پارلیمان کے ایوان کو اکھاڑے میں تبدیل کرکے جمہوریت کا مذاق اڑایا ہے۔ قومی اسمبلی میں ہونے والی گالم گلوچ اور غیر مہذب انداز بیان ٹی وی اسکرینوں کے ذریعے گھر گھر پہنچ گئی اور لوگوں نے اپنی آنکھوں سے مقبول عوام جماعتوں کا تماشا دیکھ لیا۔ پاکستان کی دو بڑی جماعتوں نے غیر ذمے داری اور غیر سنجیدگی کی تمام حدیں پار کردی ہیں۔ یہ رویہ اس بات کا غماز ہے کہ معاشی پالیسی جیسے اہم موضوع پر پارلیمان کے ایوان میں سنجیدہ اور عالمانہ بحث ہو ہی نہیں سکتی۔ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ظاہر ہوتا ہے کہ ایوان کی ذہنی سطح ہی میں پستی نہیں آئی ہے بلکہ یہ پستی اخلاقی بحران کا بھی پتا دے رہی ہے۔ ایک ایسی قوم اور ملک جو داخلی اور خارجی خطرات میں گھری ہوئی ہے، اس کے ذمے داروں اور چارہ سازوں کا کردار بُری طرح بے نقاب ہوگیا ہے۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں ہونے والی ہنگامہ آرائی پر انتہائی دُکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بجٹ کے اہم ترین سیشن کے دوران میں قومی اسمبلی کے جو مناظر ٹی وی اسکرینوں کے ذریعے گھروں تک پہنچے ہیں اس سے قوم کا سر شرم سے جھک گیا، تاہم اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح ہوگیا کہ حکمران طبقہ کبھی بھی ملک کے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہوسکتا۔ شور شرابہ، نعرے بازی، ہلڑی بازی، گالم گلوچ اور ایک دوسرے پر حملوں سے قوم کو بس یہ یاد دلایا گیا کہ ہم حکمران ہیں اور آپ محکوم۔ پاکستانیوں کو سوچنا پڑے گا کہ کیسے ملک و ملت کا درد رکھنے والے افراد کو اسمبلیوں تک پہنچانا ہے، الیکشن میں دھونس اور دھاندلی کا کلچر ختم کرکے ہی ایسا ممکن ہوسکتا ہے۔ پارلیمان میں شرمناک کارکردگی کا مظاہرہ ایسے وقت میں سامنے آیا جب ملک میں سول سیاسی بالادستی کی بحث چل رہی ہے، تمام فساد کا سبب غیر منتخب قیادت اور اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کو قرار دیا جاتا ہے۔ یہ ایک اہم اور سنجیدہ بحث ہے کہ عوام کو جواب دہ ایوان کو ہی فیصلہ کن اختیار ہونا چاہیے، لیکن کیا اس پست ذہنی اور اخلاقی سطح کی قیادت اور رہنمائی میں یہ جنگ لڑی جاسکتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انحطاط اور زوال میں اضافہ ہورہا ہے، منتخب ایوان قوم کا مکھن ہوتا ہے، منگل کے واقعے نے ہماری اجتماعی پستی اور زوال کو بے نقاب کردیا ہے۔