’’انتہا پسندی کے اسباب اور سدباب‘‘

2664

کوئی بھی معاشرہ مختلف رنگ و نسل کے لوگوں سے تشکیل پاتا ہے۔ جہاں ایک طرف ان کی سوچ، نظریے اور رہن سہن کے طریقوں میں حسین امتزاج نظر آتا ہے تو دوسری جانب تعصب، نفرت، قتل و غارت گری، دھوکا دہی اور نظریاتی اختلافات جیسے منفی رویے بھی دیکھنے میں آتے ہیں جو اکثر انتہا پسندی کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ دنیا کے مختلف خطوں، خصوصاً پاکستان میں وقتاً فوقتاً ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جن کا براہ راست تعلق انتہا پسندی سے ہوتا ہے۔ یہ دہشت گردانہ واقعات یا تو مذہبی بنیادوں پر ہوتے ہیں یا عصبیت اور دشمنی کی بنا پر۔
عربی زبان میں انتہا پسندی کے معنی ’غلو‘ کے ہیں یعنی ’حد سے تجاوز کرنا‘۔ اچھا یا برا کوئی بھی عمل اگر میانہ روی اور اعتدال کی لکیر پار کرلے تو وہ انتہا پسندی کے زمرے میں آتا ہے۔ جیسے کچھ لوگ مذہب کی بنیاد پر خودکش حملے کرتے ہیں تو کچھ دین کی جستجو میں دنیا تیاگ کر جوگی بنتے ہیں۔ طاقت کے بل بوتے پر کسی خاص مقصد کا حصول یا سیاسی و مذہبی خیالات، نظریات اور اقدامات بھی اگر حد میں نہ رہیں تو شدت پسندی میں شمار کیے جاتے ہیں۔ انتہا پسندی ایک سماجی ناسور ہے جو معاشرے میں انتشار اور بگاڑ کا موجب ہے۔ اس کے اسباب کا تفصیلی جائزہ لیں تو یہ ایک پرتشدد اور متعصبانہ رویہ ہے جو کسی بھی معاشرے پر زبردستی مسلط کیا جاتا ہے۔ جس کا براہ راست تعلق انسانی ذہن سے ہے مگر یہ فکری یا ذہنی رجحان نہیں بلکہ نیوٹن کے حرکت کے قانون کی رو سے کسی مخصوص واقعے کے رد عمل میں پیدا ہونے والی ہیجانی کیفیت ہے۔ مغربی ممالک انتہا پسندی کی اصطلاح کا استعمال اپنے مفادات کے مطابق کرتے ہیں۔ ان کے تشکیل کردہ معیار کے مطابق انتہا پسند اگر مسلمان ہے تو دہشت گرد اور غیر مسلم ہے ذہنی مریض کہلاتا ہے۔ دنیا میں اسلام کو پرتشدد مذہب اور مسلمانوں کو دہشت گرد مانا جاتا ہے۔ مگر یہ کسی مخصوص مذہب کی میراث نہیں درحقیقت طاقت کے بل بوتے پر اپنے کسی بھی جائز یا ناجائز نظریے کو برحق جان کر اسے دوسروں پر مسلط کرنا ہی اصل انتہا پسندی ہے۔ اگر طالبان کا خوکش حملہ کرکے اپنے ساتھ کئی بے گناہ افراد کی جان لینا انتہا پسندی ہے تو نیوزی لینڈ میں مساجد پر حملے میں درجنوں مسلمانوں کو شہید کرنا، کیلی فورنیا، ویانا اور برلن میں فائرنگ کرکے متعدد بے گناہ افراد کو موت
کی گھاٹ اتارنا، آزادی رائے کے نام پر یورپ میں توہین رسالت کرنا بھی انتہا پسندی اور مذہبی منافرت ہے۔ فلسطین، کشمیر، شام، عراق، افغانستان، برما اور میانمر میں دہائیوں سے جاری ظلم و ستم اور درندگی بھی دہشت گردی ہی کی مثالیں ہیں۔ مگر مغربی اصطلاح میں بہیمانہ قتل کرنے والے نہیں بلکہ دفاع کے لیے مزاحمت کرنے والے انتہا پسند کہلاتے ہیں۔ آج پوری انسانیت کو مذہبی شدت پسندی کا سامنا ہے جو بشمول اسلام تمام مذاہب فکر میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ یہ انتہا پسند یا تو حالات کی چکی میں پس کر بنتے ہیں جیسا کہ نائن الیون کے پوشیدہ حقائق کے تناظر میں دیکھیں تو اسی کے نتیجے میں عالمی سطح پر انتہا پسندی پروان چڑھی۔ اسی طرح پاکستان میں لال مسجد میں ماورائے عدالت قتل و غارت گری کے رد عمل میں کئی خود کش حملہ آور پیدا ہوئے جن سے ہمارے ملک کو آج بھی شدید خطرہ درپیش ہے۔ دوسری صورت میں کسی بھی ملک میں نظریہ ٔ ضرورت کے تحت سیاسی یا استعماری قوتیں کسی دہشت گرد تنظیم کی تشکیل میں معاون کردار ادا کرتی ہیں اور نظریہ ٔ ضرورت ختم ہوتے ہی یہی قوتیں انہیں مسمار کرنے کے درپے ہوجاتی ہیں کیونکہ تب دوسروں کی بربادی کے لیے بنائی گئی قوتیں ان کے اپنے گلے کی ہڈی بن جاتی ہیں۔ اس کی واضح مثال پاکستان میں ٹی ٹی پی کا قیام اور پھر انہیں کالعدم قرار دینا ہے۔
انتہا پسندی کی ایک وجہ مختلف مذاہب میں مسلکی منافرت اور فرقہ واریت بھی ہے۔ اگر اسلامی مسالک کی بات کی جائے تو کفار کی نظر میں ہم صرف مسلمان ہیں مگر آپس میں شیعہ، سنی، بریلوی، اہل سنت، اہل حدیث، دیوبندی وغیرہ ہیں۔ مسلمانوں میں ایسے فرقے بھی ہیں جن کے شعار دین اسلام کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ مثلاً ایک فرقے کے عالم اپنے پیرو کاروں میں کرنٹ منتقل کرتے ہیں تو دوسرے فرقے کے عالم پیسے بٹورتے دکھائی دیتے ہیں۔ کچھ خود کو سجدے کرواتے ہیں تو کچھ علما کے سامنے باقاعدہ میوزک اور ڈھول کی تھاپ پر ناچ گانے چلتے ہیں۔ کچھ بظاہر سید مریدوں کی سادگی کا فائدہ اٹھا کر مسند اعلیٰ تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ کیا دین اسلام میں غیر اللہ کو سجدے کرنا اور گانا بجانا جائز ہے؟؟ کیا یہ سب دین اسلام کی تعلیمات کے منافی نہیں؟؟ کیا یہ مذہبی انتہا پسندی کے زمرے میں نہیں آتے؟؟
اسلام ایک معتدل اور امن پسند مذہب ہے اور انتہا پسندی صرف شان خداوندی ہے کیونکہ ابتدا بھی وہی اور انتہا بھی وہی ہے۔ جب دینے پر آتا ہے تو رحمن و رزاق بن کر جود و کرم کی انتہا کرتا ہے اور ناراضی میں قہار بن کر لمحوں میں انسان کو نیست و نابود کرتا ہے۔ انسان کے لیے اللہ تعالیٰ نے میانہ روی کو پسند کیا ہے۔ جب وہ اپنی حد پار کرکے پروردگار کی مخصوص اصناف اپناتا ہے تو معاشرے کے لیے نقصان دہ ہونے کے ساتھ اپنے لیے بھی قہر خداوندی کو دعوت دیتا ہے۔ قرآن کریم میں واضح الفاظ میں انتہا پسندی کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ ’’کہہ دیجیے! اے اہل کتاب تم اپنے دین میں ناحق زیادتی مت کرو‘‘۔
مذہب کے علاوہ بھی چند عوامل ہیں جن کے باعث انتہا پسندی جنم لیتی ہے۔ اس ہیجان انگیز منفی رویے کی ایک اہم وجہ عدم برداشت بھی ہے جو معاشرتی نا انصافیوں کی اہم وجہ بنتی ہے۔ حکمرانوں کی جانب سے بنیادی حقوق کی پامالی یا عدم دستیابی، احساس محرومی، بے روز گاری اور تعصبانہ رویے اسے مزید ہوا دیتے ہیں۔ اگر معاشی طور پر غیر مستحکم شخص کے لیے دو وقت کی روٹی سوالیہ نشان بن جائے تو اس کے ذہن سے حرام، حلال، جائز، ناجائز صحیح و غلط کا تصور نکل جاتا ہے اور صرف یہ سوچ باقی رہتی ہے کہ پیٹ کی آگ کیسے بجھائی جائے اور یہی سوچ اسے غلط لوگوں کا آلہ کار بننے پر مجبور کرتی ہے۔ اسی طرح اگر معاشرے میں طبقاتی نظام کو فروغ ملے، امیر امیر تر اور غریب غربت کی لکیر سے مزید نیچے چلا جائے یا ظلم و ستم اور ناانصافی حد سے بڑھ جائے تو لوگوں میں احساس محرومی یا باغیانہ رویہ پرورش پا کر انتہا پسندی کی شکل اختیار کرتا ہے۔
ایک المیہ یہ ہے کہ طبقاتی نظام تعلیم بھی نا انصافی کی کڑی ہے۔ تعلیمی مواد زیادہ تر حقیقت سے ماورا ہونے کے ساتھ اسلامی اور تاریخی حوالے سے بھی ابہام کا شکار ہے۔ ساتھ ہی طلبہ میں رواداری و دوستی جیسے اقدار کے فروغ اور سماجی شعور کی بیداری میں بھی ناکام رہا ہے۔ طبقاتی نظام تعلیم کی وجہ سے اکثر غریب والدین اپنے بچوں کو دینی مدارس میں بھیجتے ہیں۔ مدارس میں مختلف مسلکوں سے وابستگی کی وجہ سے ایک طرف فرقہ واریت کو ہوا ملتی ہے تو دوسری جانب کچھ مدارس قرآن و احادیث کے سیاق و سباق سے ہٹ کر انتہا پرستی کی تعلیم بھی دیتے ہیں۔ انسانیت کی بقا کے لیے انتہا پسندی کا خاتمہ انتہائی ضروری ہے۔ارشاد خداوندی ہے۔
’’اسی سبب سے، ہم نے بنی اسرائیل پر لکھا کہ جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے کے بغیر یا زمین میں فساد کے علاوہ قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا، اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخشی‘‘ (المائدہ: 32)
چناچہ انتہا پسندی کے سدباب کے لیے ضروری ہے کسی بھی مذہب کو مورد الزام ٹھیرانے کے بجائے عالمی سطح پر اس کی روک تھام کریں۔ باہمی جھگڑوں اور نفرتوں کو ختم کرکے آپس میں بلا مذہبی تفرقے کے راواداری اور محبت کو فروغ دیں۔ انتہا پسندی مذہبی ہو یا سیاسی، سب کا آلہ کار زیادہ تر نوجوان نسل ہیں جو عمر کے ایسے دور سے گزر رہے ہوتے ہیں جہاں ان کا ذہن ایک کورے کاغذ کی مانند ہوتا ہے اور اس پر کوئی بھی نقش دیرپا ثابت ہوتا ہے۔ اس لیے اس امر کی ضرورت ہے کہ نوجوان نسل کو جس حد تک ممکن ہو، بہتر تعلیم و تربیت دی جائے تاکہ ملک کا مستقبل محفوظ ہو۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ملک بھر میں یکساں نظام تعلیم رائج ہو اور نصاب میں قرآن پاک اور مصدقہ احادیث کی تشریح و تفسیر کو بھی لازمی جز قرار دیا جائے۔ ساتھ ہی اقلیتوں کو مذہبی فرائض کی ادائیگی کی مکمل آزادی دی جائے۔
انفرادی طور پر بھی ہر شخص اپنی ذمے داری سمجھ کر منفی اور جارحانہ رویے کے بجائے مثبت سرگرمیوں کو فروغ دے۔ ساتھ ہی برداشت، ایثار، صلہ رحمی اور تحمل جیسی اقدار کو اپنائے۔ اپنا نظریہ کسی پر مسلط کرنے کے بجائے ان کے نظریہ کا بھی احترام کریں۔ اختلاف رائے زندگی کا حسن ہے انہیں ختم کرنے کے لیے آپس میں مکالمے کی فضا پیدا کریں۔