کراچی کو کینیڈا سے چلانے کا انکشاف

835

چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کراچی میں تجاوزات سے متعلق کیسز کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ کراچی کراچی کو کینیڈا سے چلایا جا رہا ہے۔ سندھ کا اصل حکمران یونس میمن ہے۔ ساری بڈنگ وہ کینیڈا میں بیٹھ کر دیکھ رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سندھ میں حکومت ہے ہی نہیں یہ نالا صاف نہیں کر سکتے تو صوبہ کیسے چلائیں گے۔ ان کا ایک ہی منصوبہ ہے کہ بد سے بدتر کردو… عدالت کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ سندھ کے سوا تمام صوبے ترقی کر رہے ہیں۔ عدالت نے قبضے کی اراضی پر تمام لیز کو جعلی قرار دے دیا ہے۔ نالا آپریشن جاری رکھنے اور چائنا کٹنگ کے 36 ہزار پلاٹس کے ڈی اے کلب، اسکواش کورٹ، الہٰ دین پویلین کلب، شاپنگ سینٹرز گرانے کا حکم دے دیا ہے۔ منگل کے روز ہی چیف جسٹس کی عدالت آمد کے موقع پر گجر نالا اور اورنگی کے متاثرین نے دھرنا دیا اور تجاوزات کی آڑ میں لیز مکانات کو مسمار کرنے پر احتجاج کیا۔ اس مقدمے میں کراچی میں تجاوزات کے خلاف آپریشن جاری رکھنے کا حکم بھی دیا ہے جبکہ لیز کے باوجود مکانات مسمار کرنے کے خلاف تمام درخواستیں بھی مسترد کر دی ہیں۔ یہ مقدمہ مختلف کروٹیں بدلتا ہوا اب بلڈوزر تک پہنچ گیا ہے۔ کراچی میں گزشتہ کئی برس سے بلڈوزر چل رہے ہیںاور ملبہ اب بھی ہر جگہ سے صاف نہیں ہو سکا۔ سرکاری زمین پر جعلی یا غلط لیز جاری کرنا اور اس پر قبضہ کرکے کاروبار کرنا صریح غلط اور جرم ہے۔ اس کی روک تھام کی جانی چاہیے۔ لیکن اس معاملے کا دوسرا پہلو بھی ہے کہ اپنے ملک کے عوام کو رہائش کی سہولت دینا سرکار کا کام ہے۔ اور سرکار اگر یہ کام نہیں کرتی تو عملاً اسے گرفت میںلیا جانا چاہیے۔ جو لوگ گجر نالا یا کسی سرکاری زمین پر قابض ہیں وہ اچانک کسی روز صبح وہاں جھگی یا مکان بنا کر رہنے نہیں لگے تھے بلکہ انہوں نے وہاں آبادی قائم کی اسے پانی کی ضرورت پڑی سرکاری اداروں نے پیسے کھا کر انہیں پانی دیا۔ بجلی کے سرکاری محکمے اور بعد میں پرائیویٹ کمپنی نے بھی انہیں بجلی مہیا کی۔ کے ڈی اے اور سندھ رجسٹرار نے ان کی زمین کو لیز کیا۔ سرکار اپنی زمین کا درست استعمال کرنا چاہتی ہے اور شہری منصوبہ بندی ٹھیک کرنا چاہتی ہے تو ضرور کرے لیکن جن اداروں، افسروں اور اہلکاروں نے رشوت لے کر سرکاری اراضی کو فروخت کیا، لیز کیا اور بہت سے افسر تو پیسے کھا کر مر گئے ان کا تو کچھ نہیں بگڑا اور برسوں سے لیز زمین پر ٹیکس ادا کرتے رہنے والوں کو اچانک بلڈوزر کا سامنا ہے۔ یہ قانون ملک کے بہت سے علاقوں میں ہر ایک پر یکساں کیوں لاگو نہیں ہوتا۔ صرف گجر نالے اور اورنگی ٹائون تک کیوں محدود ہے۔ بحریہ ٹائون اوردیگر ہائوسنگ اسکیموں کی طرف کیوں نہیں آتا۔ ناظم آباد سے عباسی شہید کے پرانے پل کو گرا کر جس پیچیدہ انداز میں راستے بنائے گئے ہیں وہ محض ایک دو پروجیکٹس کو بچانے کے لیے بنائے گئے ہیں۔وہ کس کے ہیں ان کا فائدہ کون اٹھا رہا ہے۔ جو شہری غلط جگہ بھی بیٹھ گئے ہیں ان کو متبادل جگہ دینا اور منتقلی کا وقت دینا ریاست کی ذمے داری ہے۔ اس مقدمے میں ان افسروں اور اداروں کو بھی طلب کیا جانا چاہیے جن کے لوگوں نے یہ جعلی لیز دی اورسرکاری اراضی کو بیچ کھایا۔کراچی میں چائنا کٹنگ، شہر کے پارکوںپر قبضہ ان پر رہائشی منصوبے بنا کر بیچ دیے والوںپر بلڈوزر کب چلے گا۔ لیاری ایکسپریس وے کا ذکر بھی آیا ہے جو نعمت اللہ خان کے دور میں بنا اور وہاںسے متاثرین کو بڑی سہولت سے مشکل کیا گیا۔جہاں تک عدالت کے کراچی کو کینیڈا سے چلانے کے ریمارکس کا تعلق ہے تو حقیقت یہ ہے کہ کراچی چل ہی نہیں رہا ہے۔ جن معاملات کا ذکر ہے وہ جعلسازی کے سوا کچھ نہیں اور جعلسازی کی نگرانی دبئی، لندن، کینیڈا سے ہی ہوتی ہے۔ ویسے پنجاب بھی لندن سے کنٹرول ہو رہا ہے۔ عدالت نے تو محض ایک پہلو کا حوالہ دیا ہے لیکن کراچی ہو یا سندھ کے پسماندہ علاقے یہاں پانی کی فراہمی کو کس نے روکا ہے۔ ٹینکرز سے چوری کا پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ سرکاری ٹینکر سے چھوٹی ٹنکیوں والوں کو پانی بیچا جاتا ہے۔ کھلے عام ان بڑے ٹینکروں سے پانی چھوٹی ٹنکیوں میں منتقل ہوتا ہے۔ چند سو کا پانی کئی کئی ہزار میں بیچ دیا جاتا ہے۔ پھر عوام واٹر بورڈ کو بل کیوں دیں گے۔ یہ سارا گورکھ دھندا سرکاری ادارے اور اس کے بدعنوان افسران چلاتے ہیں۔ عدالت نے جتنا نوٹس لے لیا اور جو ریمارکس دیے ہیں ان کی روشنی میں بہت سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک کھچڑی پک گئی ہے۔ عدالت نے درست توجہ دلائی ہے کہ انتظامیہ درست رپورٹ نہیں دے رہی۔ حقیقت بھی یہی ہے۔ کہیں اعلیٰ افسران ملوث ہیں، کہیں وزیر، تو کہیں ڈی ایچ اے والے۔ ایسے میں انتظامیہ درست رپورٹ دے تو کس طرح دے۔ اس سارے معاملے کو بغور دیکھنے کی ضرورت ہے۔ راتوں رات ان لوگوں کو سڑک پر کھڑا نہیں کیا جا سکتا۔ ریاست اس معاملے میں اپنی ذمے داری ادا کرے۔ عوام کو گھر اور روزگار دینا اس کی بنیادی ذمے داری ہے۔ اس کا اہتمام کیا جائے۔ متبادل کا نظام بھی بنایا جائے۔ اس بات کا فیصلہ کیسے ہوگا کہ لیز جعلی ہے۔ اگر سرکاری ادارہ لیز جاری کر رہا ہے اور اس پر مجاز افسر کے دستخط ہیں تو اس سے پوچھا جائے کہ اس نے کیسے لیز کے کاغذات پر دستخط کر دیے۔ ساری سزا غریب شہریوں کو نہ دی جائے۔ البتہ شہر کے کھیل کے میدانوں کو بچوں کے لیے کھولنے کا حکم بہت اہم ہے اس پر عملدرآمد بھی ضروری ہے۔ بعض قبضوں اورتجازوات کو تو اتنا عرصہ گزر گیا ہے کہ لوگ اسے جائز اور قانونی تصور کرنے لگے ہیں۔ توقع ہے کہ عدالت عطمیٰ 16 جون کو کراچی کے درجنوں کھیل کے میدانوں، تعلیمی اداروں اور ہاسٹلوں میں موجود رینجرز کے بارے میں بھی فیصلہ کرے گی۔ جامعہ کراچی کا شیخ زاید سینٹر ہو یا پرل کانٹی نینٹل کے سامنے واقع ہاسٹل یاشہر کے درجنوں پارکس اور کھیل کے میدان یہاں بھی ان زمینوں کا وہ استعمال نہیں ہو رہا جس مقصد کیلیے یہ مختص کی گئی تھیں۔ شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا بھی حکومت کاکام ہے لیکن اس کے لیے تعلیمی اداروں، پارکوں اور کھیل کے میدانوں یا ہاسٹلوں کو سیکورٹی اداروں کے حوالے کر دینا اور عام شہریوں کے لیے راستہ بند کر دینا کہاں کا انصاف ہے۔ پھر تو پولیس تھانوں کے بجائے کھیل کے میدانوں میں دفتر بنا لے۔ عموماً ہوتا یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ سماعت اور پیشی کے وقت ضرور ایسے ریمارکس دیتی ہے جس سے لوگوں کو انصاف ملنے کی توقع ہو جاتی ہے۔ اس مقدمے میں جو انکشاف ہوئے ہیں ان کی اصلاح میں برسوں لگ جائیں گے اور بہت سارے کام ایسے ہیں جو دو دن میں ممکن نہیں۔ سرکاری بدعنوان مشینری معاملات ایسے گھمائے گی کہ اگلی کی سماعتوں تک مسائل حل نہ ہو سکیں اور یہ دوسری حکومت نئے چیف جسٹس اورنئے حالات کا انتطار کریں گے۔ عدالت عظمیٰ جو فیصلے کرے ان پر عملدرآمد کا نظام بھی وضع کرے ورنہ بد سے بدتر بنانے والے عدالتی فیصلوں کو بھی مذاق بنا دیں گے۔