قومی اسمبلی میں پارلیمانی تاریخ کا بدترین ہنگامہ ،حکومتی اور لیگی ارکان میں لڑائی ،بجٹ دستاویزات ایک دوسرے کو دے ماریں

420

اسلام آباد(صباح نیوز+آئی این پی) قومی اسمبلی میں منگل کو پارلیمانی تاریخ کی بدترین ہنگامہ آرائی ہوئی۔ حکومتی اور لیگی ارکان لڑپڑے،فحش گالیاں دی گئیں، حکومت اپوزیشن لیڈر پر حملہ آورہوگئی، عمران کی باجی چور ہے کے نعروں پر مریم کا چچا چور ہے، مریم کا بابا چور ہے کے نعرے لگ گئے۔ ایک دوسرے کو بجٹ کی بھاری بھرکم کتابیں دے ماریں، یہ کتابیں شہباز شریف کو بھی پڑ گئیں،کئی سارجنٹس اور ارکان زخمی ہوگئے، ہنگامی طورپر سینیٹ سے سیکورٹی طلب کرلی گئی، دو بار اجلاس کی کارروائی معطل ہوگئی، اپوزیشن لیڈر تقریر مکمل نہ کرسکے۔ گزشتہ روز قومی اسمبلی کا ہنگامہ خیز بجٹ اجلاس اسپیکر اسد قیصر کی صدارت میں ہوا۔ انہوں نے بجٹ پر تقریر کے لیے جیسے ہی فلور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو دیا تو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی قیادت میں تحریک انصاف کے ارکان اپنی نشستوں سے کھڑے ہوگئے، شہباز شریف کے خلاف نعرے لگانے شروع کردیے۔ دوسری طرف سے بھی سخت نعرے لگائے گئے، اپوزیشن لیڈر پر حکومتی حملے کے پیش نظر ن لیگ کے ارکان نے شہباز شریف کو حصار میں لے لیا اس دوران پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری بھی ایوان میں آگئے۔ ایوان میں ایک حکومتی رکن نے باجا بجانا شروع کردیا جبکہ حکومتی ارکان میں سیٹیاں تقسیم کی گئیں اور زور زور سے شہباز شریف کی تقریر کے دوران وسل بجتی رہی۔ جس پر شہباز شریف کی بجٹ تقریر شورشرابے کے باعث سنائی نہیں دے رہی تھی۔ اپوزیشن لیڈر نے کہاکہ اس ساری صورتحال کی ذمہے داری اسپیکر (آپ) پر عائد ہوتی ہے، آپ اس ایوان کے محافظ ہیں اور آپ نے چپ سادھ رکھی ہے بلکہ آپ پرسکتہ طاری ہے۔ انہوں نے حکومت کے اعدادوشمار کو چیلنج کیا اور کہاکہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی قیادت میں پاکستان نے جو ترقی کی اسے تباہی سے دوچارکردیا گیا ہے۔ اپوزیشن لیڈر کی تقریر میں تحریک انصاف کے ارکان نے سخت خلل ڈالا جبکہ حکومتی اتحادی جماعتیں جی ڈی اے، ایم کیوایم پاکستان کے ارکان خاموشی سے اپنی نشستوں پر بیٹھے رہے اور پی ٹی آئی کے ارکان کا ساتھ نہیں دیا۔ جارحانہ احتجاج میں علی نواز اعوان، فہیم خان، علی امین گنڈاپورشامل تھے جبکہ ن لیگ کے ارکان علی گوہربلوچ، افتخار نذیر پیش پیش تھے اور کتوں ، بلوں کی سرکار نہیں چلے گی کا غیر مہذب نعرہ لگا دیا گیا جس پر تحریک انصاف کے ارکان میں اشتعال پھیل گیا، افتخار نذیر اور علی نواز اعوان کے درمیان سخت تلخ کلامی ہوئی، علی نواز اعوان نے ن لیگ کے ارکان کو گالیاں دیں اور بجٹ کی کتاب دے ماری۔ جس پر یہی کتاب اٹھا کر پی ٹی آئی کے ارکان پر پھینک دی گئی۔ اس صورتحال کی وجہ سے ایوان کا ماحول کا سخت کشیدہ ہوگیا۔ ایوان کی کارروائی معطل کردی گئی۔ اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو پی ٹی آئی کے ارکان میں شدت آچکی تھی ۔ فہیم خان بنچ پر چڑھ گئے اور مریم کا بابا چور ہے، مریم کا چچا چور ہے، سارا ٹبر چور ہے کہ نعرے لگانا شروع کردیے۔ دوسری طرف سے ڈونکی راجا کی سرکار نہیں چلے گی ، نہیں چلے گی کے نعرے لگے تو سادگی میں پی ٹی آئی کے بعض ارکان نے جواب دیا کہ چلے گی چلے گی، عمران کی باجی چور ہے، گو نیازی گو، اور انتہائی غیر مہذب نعرے لگتے رہے۔ پیپلزپارٹی اوردیگر اپوزیشن ارکان نے حیران کن طورپر احتجاج میں جزوی طورپر حصہ لیا۔ اس دوران وزیر اطلاعات فواد چودھری بھی اپنی نشست کے بنچ پر بیٹھ گئے اور وڈیو بنانا شروع کردی ۔ دونوں اطراف سے ایک دوسرے کو مارنے کے لیے للکارا جاتارہا، دھمکیاں دی گئیں۔ دھکم پیل ہوئی جس پر سارجنٹ نے دونوں اطراف کے درمیان میں ہاتھوں میںہاتھ ڈال کرحصار باندھ لیا۔ تلخ کلامی کو دیکھ کر ایک بار پھر اجلاس کی کارروائی معطل ہوگئی۔ اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو شہباز شریف نے تقریر شروع کیا اس دوران حکومتی اورن لیگ کے ارکان ایک دوسرے کے قریب آچکے تھے۔ انتہائی نازیبا نعروں پر پی ٹی آئی کے ارکان آگے بڑھ گئے۔ دوسری طرف کے ارکان پر ہاتھ اٹھا دیے تاہم سارجنٹس درمیان میں آگئے۔ علی امین گنڈاپور اور فہیم خان اس کشیدہ ماحول میں شدت لاتے رہے اور بجٹ کی بھاری بھرکم کتابوں سے ن لیگ کے ارکان پر حملہ آور ہوگئے ۔ اپوزیشن لیڈر کی نشست پر بھی بجٹ کتابیں پھینک دی گئیں۔ پہلا موقع ہے حکومتی ایجنڈا حکومتی ارکان نے پھاڑ کر پھینک دیا۔ دھکم پیل میں فہیم خان بھی زخمی ہوگئے۔ 2 خواتین ارکان کو بھی چوٹیں آئیں۔ 3سارجنٹس زخمی ہوگئے۔ کافی دیر حملے کا سلسلہ جاری رہا اسپیکرا جلاس معطل کرکے چیمبر میں چلے گئے اور کتابوں کے ذریعے ایک دوسرے کو مارنے کا یہ سلسلہ شدت پکڑ گیا۔ کافی دیر تک ایک دوسرے کی طرف کتابیں پھینکی جاتی رہیں۔ سارجنٹس نہ ہوتے توسخت تصادم ہو جاتا اور کئی ارکان شدید زخمی ہو جاتے۔ آہستہ آہستہ ارکان نے باہر جانا شروع کردیا ۔ ہال کی لائٹس بندکردی گئیں اور پھاڑی گئی کتابیں اوردیگر دستاویزات کی صفائی کے بعد 8بج کر 10 منٹ پر اسپیکر اسد قیصر ایوان میں آئے اس دوران سینیٹ سے بھی سارجنٹس کو مددکے لیے طلب کیا گیا تھا۔ 30سارجنٹس نے درمیان میں حصار باندھ لیا چند لمحوں میں اسد قیصر نے اجلاس بدھ کی دوپہر 2بجے تک ملتوی کرنے کا اعلان کردیا۔بعد ازاں اسپیکر قومی اسمبلی نے غیر پارلیمانی رویہ اور نازیبا زبان کا استعمال کرنے والے ارکان کے ایوان میں داخلے پر پابندی لگا دی ،اسپیکر نے ایوان میں ہنگامہ آرائی کی جامع تحقیقات کا بھی اعلان کردیا ۔