۔3 سال میں 533 ارب ریکور کئے ،پک اینڈ چوز کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،چیئرمین نیب

160
لاہور: چیئرمین نیب جاوید اقبال گوجرانوالہ موٹرز کیس کے متاثرین میں چیک تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب کررہے ہیں

لاہور (نمائندہ جسارت) چیئرمین قومی احتساب بیورو ( نیب) جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا ہے کہ جو لوگ چند کیسز میں یہ مثالیں دیتے ہیں کہ حکومتی لوگوں کے مقدمات کا فیصلہ نہیں ہو رہا وہ اس کی تاریخ دیکھ لیں ، ان کیسز میں عدالتوں کے فیصلے آئے ہوئے ہیں اور عدالتوں نے روکا ہے ، ایک بات ہر ذی شعور کو سمجھنی چاہیے کہ کچھ لوگ 35 سال اقتدار میں رہے ہیں اورکچھ کو ابھی 35مہینے نہیںگزرے لیکن نیب مایوس نہیں کرے گا ،پک اینڈ چوز کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،ساڑھے 3 سال میں 533ارب روپے کی ریکوری ہوئی ہے ، شاید 533روپے کی بھی ریکوری بھی نہ ہو سکی ہو، نیب کا ادارہ عوام کی خدمت کے لیے وجود میں آیا یہ بڑے لوگوں کی خدمت کے لیے وجود میں نہیں آیا ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے نیب لاہور کے دفتر میں ٹویوٹا گوجرانوالہ کیس میں 660متاثرین میں90کروڑ روپے کے چیک تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے ۔جسٹس جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ اگر نیب سرمایہ کاری میں رکاوٹ ہوتا تو اسٹاک ایکسچینج اوپر نہ جاتی جس نے تاریخ کے سارے ریکارڈ توڑے ہیں ،آپ کی برآمدات اتنی زیادہ نہ ہوتیں،آپ کو ترسیلات زر نہ ملتیں، تعمیراتی شعبہ اتنا ترقی نہ کرتا ہے،یہ کہا گیا کہ نیب چھوٹی مچھلیوں کو پکڑتا ہے ، ہم نے تو شارک مچھلیوں اور مگر مچھوں کو بھی پکڑا ہوا ہے اورسمندر میں اس سے بڑی کوئی اورمخلوق نہیں جسے ہم نہ پکڑیں۔ انہوں نے کہا کہ نیب آرڈیننس میں لاکھ دفعہ ترامیم کریں لیکن عدالت عظمیٰ اسفند یار ولی کیس میں نیب قانون کے ایک ایک لفظ کو دیکھ چکی ہے ، جو شقیں آئین سے مطابقت نہیں رکھتی تھی وہ ختم ہو چکی ہیں،کیا کچھ لوگ عدالت عظمیٰ سے زیادہ ذہین اورزیادہ قابل ہیں، بتائیں پلی بار گن ختم کر کے کیا طریق کار اختیار کریں گے؟،آپ بیشک ترامیم کریں ، قانون سازی پارلیمنٹ کااختیار ہے ،ارباب اختیار سے گزارش کروں گا جیسے مرضی قانون میں ترمیم کریں لیکن اسفند یار ولی کو کیس میں سامنے رکھیں ۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ چند دن پہلے مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک صاحب خطاب کر رہے تھے اور انہوں نے کہاکہ سرمایہ کاری نیب کی وجہ سے رک گئی ہے اور نیب کے قانون ہے میںتبدیلی ہونی چاہیے ،کاش یہ لوگ نیب کا قانون پڑھ کر آ جاتے ، تنقید برائے تنقید نہیں ہونی چاہیے ۔ تنقید کرنے والوں کو حقائق کا ادراک ہوتا نہیں او ریہ روسٹرم پر آکر تقریر شروع کر دیتے ہیں ، یہ کہتے ہیں کہ نیب او رپاکستان ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے ، نیب او رپاکستان ساتھ ساتھ چل رہے ہیں نیب او رکرپشن ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ جو سویرے عدالت میں پیشی بھگت رہے ہوتے ہیں وہ ایک گھنٹے بعد خطاب کر رہے ہوتے ہیں اوران کا جو دل چاہتا ہے کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نیب سرمایہ کاری میں کوئی رکاوٹ نہیں ،آج آپ کی برآمدات صرف نیب کی وجہ سے بڑھ رہی ہے ، ایک سرمایہ کار بتا دیں جس نے یہ کہا ہو کہ میں نیب کی وجہ سے سرمایہ کاری نہیںکرتا ۔ انہوں نے کہا کہ یہ کہا گیا کہ بزنس مین کمیونٹی مطمئن نہیںاور قانون میں ترمیم ہونی چاہیے اور بھی ہو گئی ،اس کے لیے آرڈیننس آیا اور وہ چار مہینے رہا ۔چار مہینے میں ایک فیصلہ بتا دیںجس میں یہ کہا گیا کہ ہو نیب رکاوٹ ہے تو میں ہر سزا بھگتنے کے لیے تیا رہوں ۔ انہوں نے کہا کہ جتنے بھی بزنس مین ہیں میں انہیں یقین دلاتا ہوں نیب کی وجہ سے ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا جو آپ کی مشکل کا سبب بنے ، نیب مسئلہ نہیں بلکہ مسائل کا حل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں جینوئن بزنس مین اور ڈکیت میںفرق کو روا رکھنا ہے ،ایک وہ ہیں جو معیشت کو بہتر بنانے کے لیے ، عوام کو روزگار دینے کے لیے کام کرتے ہیں اور دوسرے نمبر 2 ہیں او ر مجھے انہیںڈکیت کہنے میں کوئی عار نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ راولپنڈی میں ایک سوسائٹی کے پلاٹ بیچے گئے اور لوگوں سے اڑھائی ارب روپے اکٹھے کیے گئے لیکن نہ پلاٹ دیے گئے اور نہ 7 سال گزرنے کے باوجودپیسے واپس کیے گئے۔ میںنے ان صاحب کو بلایا اور ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے سوچا تھاکہ پہلے پیسے لے لوں پھر زمین خرید لوں گا لیکن اب زمین مل نہیں رہی ، انہوںنے یہاں تک کہا کہ نیب زمین خریدنے میں میری مدد کرے ، میں نے کہا کہ نیب پراپرٹی ڈیلر کا کام نہیں کرتا ۔ ان سے کہا کہ آپ رقم ادا کریں تو انہوں نے کہا کہ فوری ادا نہیں کر سکتا جس پر انہیں کہا گیا کہ آپ نے یہ رقم ادا کرنی ہے او راس کے سوا کوئی اورراستہ نہیں ۔ہم ان صاحب سے ایک ارب روپے سے زیادہ وصول کر کے لوگوں کو واپس کر چکے ہیں۔