”متوقع“ نئی اسرائیلی حکومت۔۔۔ بھان متی کا کنبہ؟ – مسعود ابدالی

613

اسرائیل کے متحارب سیاسی گروہ مخلوط حکومت کے ایک فارمولے پر رضامند ہوگئے، جسے تبدیلی سرکار یا Change Governmentکہا جارہا ہے۔ تبدیلی ان معنوں میں کہ بارہ سال بعد بن یامین نیتن یاہو المعروف بی بی سابق وزیراعظم ہوجائیں گے۔ فروری 2009ء کے انتخابات میں انتہا پسند لیکڈ اتحاد اپنے پارلیمانی حجم کے اعتبار سے دوسرے نمر پر تھا، لیکن بی بی نے مذہبی اور قوم پرست جماعتوں سے اتحاد کرکے حکومت بنالی۔ جوڑ توڑ کے ماہر نیتن یاہو سودے بازی اور مول تول کے ذریعے گزشتہ بارہ سال سے وزیراعظم کے عہدے پر فائز بلکہ کرسی سے چمٹے ہوئے ہیں۔ سیاسی، لسانی اور مذہبی تقسیم بلکہ منافرت کی بنا پر اسرائیل میں گزشتہ تیس سال سے مستحکم حکومت نہ بن سکی اور بار بار قبل از وقت انتخابات کے باوجود کئی دہائیوں سے کوئی جماعت واضح اکثریت حاصل کرنے سے محروم ہے۔ باربار انتخابات کے موجودہ سلسلے کا آغاز جنوری 2019ء میں ہوا جب لازمی فوجی بھرتی کے قانون میں ترمیم کے مسئلے پر شریکِ اقتدار اسرائیلی ربائیوں (علما) اور قدامت پسند قوم پرستوں میں جھگڑا شروع ہوا۔ جلد ہی کشیدگی اتنی بڑھی کہ حکومت تحلیل ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا۔

وزیراعظم کی اتحادی اسرائیل مادرِ وطن پارٹی (Yisrael Beitinu)کے سربراہ لائبرمین کو مدارس کے طلبہ کے لیے فوجی خدمت سے استثنیٰ پر شدید اعتراض ہے، ان کا خیال ہے کہ ایک طبقے سے خصوصی برتائو، دوسروں سے ناانصافی ہے۔ چنانچہ انھوں نے 2019ء کے آغاز پر فوجی خدمت سے مدارس کے طلبہ کا استثنیٰ ختم کرنے کے لیے ایک قانون متعارف کروا دیا۔ اس ”جسارت“ پر ربائی سخت مشتعل ہوگئے اور ان کی دونوں جماعتوں یعنی شاس اور توریت پارٹی نے دھمکی دی کہ اگر بی بی نے بل کی حمایت کی تو وہ حکومت سے علیحدہ ہوجائیں گے۔ اُس وقت وزیراعظم نیتن یاہو کو پارلیمان کے 73 ارکان کی حمایت حاصل تھی جن میں ان دونوں جماعتوں کے 13 ارکان بھی شامل تھے۔ شاس اور توریت پارٹی کی حمایت کے بغیر 120 رکنی کنیسہ میں واضح اکثریت برقرار رکھنا ممکن نہ تھا۔ بی بی نے اپنے حلیفوں کو سمجھانے کی کوشش کی، لیکن دونوں ہی اپنی بات پر اَڑے رہے، چنانچہ وزیراعظم نے صدر سے کنیسہ تحلیل کرنے کی درخواست کردی اور 9 اپریل 2019ء کو نئے انتخابات ہوئے۔

انتخابات کا اعلان ہوتے ہی جناب لائبرمین نے صاف صاف کہا کہ حکومت سازی کے لیے وہ صرف اُسی جماعت کی حمایت کریں گے جو ان کے بل کی حمایت کا پیشگی وعدہ کرے۔ اس ضمن میں ربائیوں کا مؤقف بھی بالکل بے لچک تھا، اور توریت پارٹی کے سربراہ موشے گیفنی نے اپنا یہ عزم دہرایا کہ بل کسی قیمت پر منظور نہیں ہونے دیا جائے گا۔ دوسری طرف وزیراعظم کو بدعنوانی کے الزامات کا سامنا تھا اور استغاثہ نے کچھ ایسے ٹھوس ثبوت پیش کردیے جس کی روشنی میں بی بی کی گرفتاری کا مطالبہ ہوا، لیکن وزارتِ عظمیٰ کے استثنیٰ کی بنا پر وہ گرفتاری سے اب تک بچے ہوئے ہیں۔

اسی دوران صدر ٹرمپ نے امریکی سفارت خانے کو بیت المقدس منتقل کرنے اور مقبوضہ گولان کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرنے کا اعلان کردیا، جس کی وجہ سے بی بی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ مقبولیت کے باوجود انتخابات میں بی بی کی کارکردگی واجبی سی رہی اور نتائج نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئے۔ مقررہ آئینی مدت میں کوئی بھی جماعت حکومت نہ بنا سکی، چنانچہ صدر نے نوزائیدہ اسمبلی تحلیل کردی اور 17 ستمبر 2019ءکو نئے انتخابات ہوئے۔ اس عرصے میں استثنیٰ کی چھتری کے ساتھ بی بی عبوری وزیراعظم کے طور پر برقرار رہے۔

نئے انتخابات کے نتائج بھی ویسے کے ویسے ہی تھے۔ وہ ایوان بھی کھِلنے سے پہلے مرجھا گیا اور 2 مارچ 2020ء کو تیسرے انتخابات منعقد ہوئے۔ اس بار بھی معلق کنیسہ وجود میں آیا لیکن بی بی نے اپنے مخالف نیلے اور سفید یا B&W اتحاد کو شرکتِ اقتدار کا جھانسہ دے کر مخلوط حکومت بنالی۔ معاہدے کےتحت نومبر میں B&Wکے سربراہ کو وزیراعظم بننا تھا۔ بی بی کے سیکیولر و قوم پرست اتحادیوں نے فوجی تربیت سے مدارس کا استثنیٰ ختم کرنے میں دلچسپی نہیں لی لیکن وزیراعظم کا استثنیٰ مزید مؤثر بنانے کے لیے قانون سازی سے بھی انکار کردیا۔ ساتھ ہی استغاثہ نے سپریم کورٹ کے روبرو مؤقف اختیار کیا کہ موجودہ قانون کے تحت وزیراعظم کو اصالتاً(in person) حاضری سے استثنیٰ تو حاصل ہے لیکن سنگین الزامات پر مقدمہ چل سکتا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے قانونی سقم کے حوالے سے وکلائے صفائی کے جواب کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے وزیراعظم کے خلاف مقدمے کی کارروائی شروع کردی۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ اصالتاً حاضری سے استثنیٰ وزیراعظم کا حق نہیں بلکہ رخصت عدالت کی توثیق سے مشروط ہے۔ پہلی حاضری کے بعد سے کورونا کا بہانہ بناکر نیتن یاہو ایک بار بھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔

وزیراعظم کے وکلا نے بی بی کو متنبہ کیا کہ اگر B&Wسے شرکتِ اقتدار کے معاہدے کے تحت نومبر میں انھوں نے وزارتِ عظمیٰ چھوڑی تو عدالت سے ان کی گرفتاری کا حکم جاری ہوسکتا ہے۔ چنانچہ انھوں نے B&W کو دھمکی دی کہ اگر استثنیٰ کے قانون میں ترمیم کرکے وزیراعظم کے ساتھ سابق وزیراعظم کو بھی تحفظ دے کر اسے ناقابلِ دست اندازیِ عدالت نہ بنایا گیا تو وہ حکومت تحلیل کردیں گے۔ آخرِکار سانجھے کی یہ ہنڈیا پھوٹ گئی اور 23 مارچ کو نئے انتخابات منعقد ہوئے۔

ان انتخابات کے نتائج بھی ملے جلے رہے۔ کنیسہ کی سب سے بڑی جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے بی بی کو حکومت سازی کی دعوت دی گئی۔ نیتن یاہو گزشتہ بارہ سال سے دائیں بازو، قوم پرست اور مذہبی جماعتوں سے اتحاد کرکے حکومت بنانے میں کامیاب ہوتے آرہے ہیں۔ لیکن اِس بار دائیں بازو کی یمینہ کے سربراہ نیفتالی بینیٹ نے اتحاد کے لیے وزارتِ عظمیٰ کی شرط رکھ دی۔ بی بی اس کے لیے تیار ہوگئے اور طے پایا کہ پہلے ڈھائی سال نیتن یاہو وزیراعظم رہیں گے اور اس کے بعد شمعِ اقتدار نیفتالی کے آگے رکھ دی جائے گی۔ اسی دوران قوم پرست جماعت کے لائبرمین نے فوجی تربیت سے مدارس کا استثنیٰ ختم کرنے کی بحث دوبارہ شروع کردی اور معاملہ یہاں تک بڑھا کہ بی بی، لائبرمین یا مذہبی جماعتوں میں سے کسی ایک کے انتخاب پر مجبور ہوگئے۔ لائبرمین کی اسرائیل مادرِوطن پارٹی کی 7 کے مقابلے میں ربائیوں کے پاس 16 نشستیں ہیں، چنانچہ بی بی نے لائبرمین سے جان چھڑاکر اسلامی خیالات کی حامل رعم اور عرب اتحاد کو مہر و محبت کے اشارے شروع کردیے۔ اس سے پہلے کہ مسلم عناصر کی جانب سے کوئی جواب آتا لیکڈ کے مذہبی اتحادیوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ ایک نیام میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں، اگر وزیراعظم عربوں اور اخوانیوں سے ہاتھ ملائیں گے تو ہماری طرف سے پیشگی شلوم (سلام)۔ بی بی نے حکومت سازی کے لیے 21 روز کی آئینی مہلت ختم ہونے پر صدر سے معذرت کرلی۔

اس کے بعد اسرائیلی صدر نے دوسری بڑی جماعت مستقبل پارٹی کے یارلیپڈ کو حکومت سازی کی دعوت دی۔ لیپڈ صاحب نظریاتی طور پر لبرل و سیکولر ہیں، چنانچہ لیبر پارٹی اور ایمرٹس پارٹی ان کے پرچم تلے آگئی۔ ”یہودی مولویوں“ سے الرجک لائبرمین نے بھی یار کی حمایت کا عندیہ دیا۔ لیکڈ سے الگ ہونے والے گیدون سعر اور وزارتِ عظمیٰ کا لالچ دے کر یار نے نیفتالی کو بھی اپنا ہمنوا بنالیا۔ دوسری طرف رعم نے اعلان کیا کہ انھیں وزارت کا کوئی شوق نہیں لیکن وہ ایک مستحکم حکومت کے لیے لیپڈ کو اعتماد کا ووٹ دینے کو تیار ہیں۔

اسی دوران شیخ الجراح سے فلسطینیوں کی بے دخلی کے معاملے پر کشیدگی بڑھی۔ بی بی نے اسے طولِ اقتدار کا سنہری موقع جانا اور پوری قوتِ قاہرہ کے ساتھ غزہ پر چڑھ دوڑے۔ فوجی مہم کی قیادت وزیر دفاع بینی گینٹز کررہے تھے جو یار لیپڈ کے نائب ہیں۔ قوم پرستی اور جنگی جنون کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں نے حکومت سازی کو بالائے طاق رکھ دیا۔ کیا انتہا پسند ربائی اور کیا لبرل و سیکولرِ ”غزہ کو فنا کردو“ سب ہی کا وظیفہِ زبان ہوگیا۔ نیفتالی بینیٹ نے یہ کہہ کر لیپڈ کا ساتھ چھوڑ دیا کہ اس وقت دہشت گردوں کے مقابلے کے لیے بی بی کے ہاتھ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ لیبر اور امیریٹس کے روشن خیالوں نے غزہ کے نہتوں پر بمباری کے بصری مشمولات (ویڈیو کلپس) کو اپنے ٹوئٹس کی زینت بناکر اسرائیلی فضائیہ کی ”جرات و شجاعت“ کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ یارلیپڈ خود بھی دبائو میں آکر گھر بیٹھ رہے۔

تاہم جنگ بندی کے بعد صورت حال ایک دم تبدیل ہوگئی۔ قوم پرستوں نے اسے اعترافِ شکست گردانا اور ہرطرف جنگ بندی نامنظور کے نعرے سنائی دینے لگے۔ صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یارلیپڈ نے حکومت سازی کی مہم دوبارہ شروع کردی اور نیفتالی بینیٹ کو وزارتِ عظمیٰ کی پیشکش کرکے ساتھ ملالیا۔ جلد ہی بی بی مخالف قوم پرست، لبرل و سیکولر بھی ساتھ آگئے اور 7 جماعتوں کے مشترکہ محاذ کا مجموعی حجم 58 ہوگیا جو حکومت سازی کے نشان سے 3 کم تھا۔ یار لیپڈ نے رعم پارٹی کے منصور عباس سے غیر رسمی بات چیت شروع کی۔ منصورعباس نے اعتماد کے ووٹ کو عرب اکثریتی علاقوں کی میونسپل کمیٹیوں کو دوسرے علاقوں کی طرح بااختیار بنانے، کمیٹیوں کو وزارتِ داخلہ کی نگرانی سے آزاد کرنے اور عرب علاقوں میں اسرائیلی فوج کے داخلے کے لیے مئیر کی اجازت سے مشروط کردیا۔ قوم پرستوں نے ان شرائط پر شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ نئی کابینہ کی مجوزہ وزیر داخلہ اور نیفتالی بینیٹ کی نائب محترمہ ایکٹ شیکڈ نے کہا کہ ”شرط مان لینے سے فلسطینی اکثریتی علاقوں پر وزارتِ داخلہ کا عمل دخل ہی ختم ہوجائے گا“۔ وزارتِ عظمیٰ کے لالچ میں نیفتالی نے منت سماجت کرکے اپنی نائب کو منالیا۔ وزارت اور پارلیمان کی مجالسِ قائمہ کی تقسیم پر اتحادیوں کے درمیان اختلافات ابھرے، لیکن نیفتالی اور یار نے بہلا پھسلا کر معاملے کو ٹھنڈا کرلیا۔

2جون کو یار لیپڈ نے مستقبل پارٹی، امیدِنو پارٹی، مادرِ وطن پارٹی، ایمرٹس، لیبر، نیلے اور سفید اتحاد، یمینہ اور رعم کے دستخطوں سے حکومت سازی کے لیے آمادگی کا خط اسرائیلی صدر کو بھیج دیا۔ ان آٹھ جماعتوں کا مجموعی پارلیمانی حجم 62 ہے۔ صدر نے یہ خط کنیسہ کے اسپیکر کی طرف اس ہدایت کے ساتھ آگے بڑھادیا کہ نامزد وزیراعظم نیفتالی بینیٹ کو جلد ازجلد اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت کی جائے۔

بی بی کے لیے یہ تبدیلی ناقابلِ قبول ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اخوان اور حماس نے کمیونسٹوں سے مل کر اسرائیل کو تباہ کرنے کی سازش تیار کی ہے۔ یہ کمزور حکومت رعم کے چار ووٹوں کی مرہونِ منت رہے گی اور دہشت گرد حکومت گرانے کی دھمکی دے کر نئی اسرائیلی آبادیوں کی تعمیر رکوا دیں گے، دو ریاست کے نام پر بیت المقدس کی حیثیت تبدیل ہوجائے گی اور کمیونسٹ ایجنڈے کو آگے بڑھاکر ملکی معیشت کو برباد کردیا جائے گا۔

معاملہ صرف بیانات تک محدود نہیں۔ گزشتہ کئی دنوں سے یمینہ کے ارکانِ کنیسہ کے گھروں پر مظاہرے ہورہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اللہ کے غضب سے دھمکانے کے ساتھ خواتین ارکان کا پیچھا کرنے اور ان کے اہلِ خانہ کو دھمکی آمیز برقی خطوط بھیجنے کا سلسلہ جاری ہے۔ یمینہ کی جواں سال رکنِ کنیسہ ایدت سلمان کا اُس وقت پیچھا کیا گیا جب وہ اپنے بچوں کو اسکول چھوڑنے جارہی تھیں۔ گاڑیوں پر نصب لائوڈ اسپیکر سے ”عیدت غدار“، ”فلسطینیوں کی بے دام کنیز“، ”عرب ناگن“ اور دوسرے فحش و شرمناک نعرے لگائے گئے۔ عیدت صاحبہ اتنی خوف زدہ ہیں کہ بچوں کو اسکول سے چھٹی دلاکر وہ نامعلوم مقام پر منتقل ہوگئی ہیں۔ کچھ ایسا ہی حال یمینہ کی نائب سربراہ محترمہ ایکٹ شیکڈ کا ہوا۔ ایکٹ صاحبہ کے گھر پر حفاظتی دستہ تعینات ہے اور موصوفہ نے گھر سے نکلنا چھوڑ دیا ہے، حتیٰ کہ اتوار کی شب انھوں نے پارٹی کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں بھی شرکت نہیں کی۔ معاملہ صرف دائیں بازو کے ارکان تک محدود نہیں۔ لبرل و سیکولر خواتین کو بھی ہراساں کیا جارہا ہے۔ ایمرٹس پارٹی کی محترمہ ثمیر زینڈبرگ کو ”مشورہ“ دیا گیا کہ وہ کنیسہ کے اجلاس میں شرکت کے بجائے اپنی نوزائیدہ بچی کا خیال کریں، شرپسند اسے نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ حال ہی میں فیس بک نے فرزندِ اول یار نیتن یاہو کا اکائونٹ ایک دن کے لیے معطل کردیا کہ موصوف نے یمینہ کے ارکان کے گھیرائو کے لیے اشتعال انگیز پوسٹ اور انسٹاگرام پر تصاویر جاری کی تھیں۔

نیتن یاہو نے شاس پارٹی کے سربراہ ارے دیری کے گھر عشائیے میں تقریر کرتے ہوئے مذہبی قدامت پسندوں کو یقین دلایا ہے کہ اللہ ان کے مخالفین کا وہی حشر کرے گا جو اس نے موسیٰ کے دشمنوں کا کیا تھا۔ معروف اسرائیلی اخبار ہاریٹز کے مطابق انھوں نے کہا کہ ”کیا آپ لوگوں کو یاد نہیں کہ اللہ نے موسیٰ کے دور میں آستین کے سانپوں سے کیسے نمٹا تھا؟ زمین پھٹی اور وہ دولت مند دشمنِ خدا اسبابِ دولت و زینت سمیت زندہ دفن ہوگیا۔“

دھمکی اور کشیدگی سے حکومتی اہلکار بھی پریشان ہیں۔ اتوار کو اندرونی سلامتی کے ادارے شین بیت المعروف شاباک کے سربراہ نے وزارتِ داخلہ و دفاع کے نام اپنے خط میں کہا کہ آسمان سے باتیں کرتی گروہی و سیاسی نفرت کی بنا پر ملک کسی بھی وقت بدترین خانہ جنگی کا شکار ہوسکتا ہے۔

جلتی پر تیل ڈالنے کے لیے انتہاپسندوں نے مشرقی بیت المقدس میں یروشلم مارچ کا اعلان کردیا ہے۔ یہ دن 1967ء کی جنگ میں یروشلم پر قبضے کی یاد میں عبرانی سال کے دوسرے مہینے ایار (Iyar) کی 28تاریخ کو منایا جاتا ہے، اس سال 10 مئی کو ایار کی 28 تاریخ تھی جب القدس شریف میں فلسطینیوں اور اسرائیلی فوج کے درمیان شدید تصادم ہوا۔ مسجد اقصیٰ کی بؔے حرمتی پر مشتعل ہوکر اہلِ غزہ نے تل ابیب پر راکٹ حملے کیے، جس کے نتیجے میں گیارہ روزہ جنگ کا آغاز ہوا۔ لڑائی کی بنا پر یروشلم مارچ معطل کردیا گیا۔ Haaretzاور چینل 12کا کہنا ہے کہ وزیردفاع بینی گینٹز کی مخالفت کے باوجود وزیراعظم نے دبائو ڈال کر منتظمین کو مظاہرے کی اجازت دلوادی ہے، اور اب یہ مارچ جمعرات 10 جون کو ہوگا۔ سیاسی مبصرین اس روز ایک اور خونریز تصادم کا خوف ظاہر کررہے ہیں۔ وزیراعظم نیتن یاہو المعروف بی بی کے لیے یہ طولِ اقتدار کا سنہری موقع ثابت ہوسکتا ہے۔

دھمکی اور ہراساں کرنے کی مہم بی بی کے حق میں ”مثبت“ ثابت ہورہی ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق یمینہ پارٹی کے موشے شکیل نے نفتالی بینیٹ کو اعتماد کا ووٹ نہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ اپنے فیصلے کی تصدیق کرتے ہوئے موصوف اتوار کی شب نفتالی کی رہائش گاہ پر بلائے گئے پارلیمانی اجلاس میں بھی شریک نہیں ہوئے۔ اگر یہ بات درست ہے تو اب ایوان میں تبدیلی سرکار کے حامی صرف 61 رہ گئے ہیں جو اعتماد کے لیے کم سے کم تعداد ہے، اور اگر نیتن یاہو مزید ایک رکن کی وفاداری تبدیل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو پانسہ پلٹ جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کنیسہ کے اسپیکر یاریو لیون پر زور دے رہے ہیں کہ اعتماد کا ووٹ ہفتے دس دن کے لیے ملتوی کردیا جائے، جبکہ نفتالی اور یارلیپڈ کا مطالبہ ہے کہ اسپیکر صاحب جلد ازجلد اعتماد کے ووٹ کا اہتمام کریں۔ یہ افواہ بھی گرم ہے کہ تبدیلی سرکار نے ”معقولیت“ اختیار کرنے کی صورت میں نئی مدت کے لیے اسپیکر کو اپنے ووٹوں سے منتخب کرانے کی پیشکش کی ہے۔ شاید اسی پیشکش کا اثر ہے کہ اعتماد کے ووٹ کے لیے کنیسہ کا خصوصی اجلاس 14 جون کو طلب کرلیا گیا ہے۔

کشیدگی کے اس سنسنی خیز ماحول میں یہ کہنا مشکل ہے کہ تبدیلی سرکار اعتماد کا ووٹ حاصل کرسکے گی یا نہیں، کہ معاملہ بس ایک ووٹ تک آچکا ہے، یعنی ایک رکن نے آنکھ پھیری اور نفتالی صاحب کا وزیراعظم بننے کا خواب چکنا چور۔ جب ہمارے موقر قارئین ان گزارشات کو شرفِ مطالعہ عطا فرما رہے ہوں گے اُس وقت تک غالباً اونٹ کسی کروٹ بیٹھ چکا ہوگا۔ اِن شااللہ اگلی نشست میں ہم تبدیلی سرکار (اگر قائم ہوگئی) کے عزائم اور نئی قیادت سے وابستہ توقعات اور اندیشوں پر بات کریں گے۔ اللہ کرے ہمارا تجزیہ غلط ثابت ہو، لیکن اس بات کی کوئی توقع نہیں کہ نفتالی اور یار کا اقتدار مظلوم و مقہور فلسطینیوں کے لیے راحت یا علاقائی امن کے لیے کسی مثبت امکان کا نقطہ آغاز بن سکے۔ نفتالی صاحب نے کل ہی فرمایا ہے کہ بی بی کے مقابلے میں تبدیلی سرکار کا جھکائو 10 درجہ مزید دائیں طرف ہوگا۔ فلسطینیوں کے معاملے میں یارلیپڈ کے خیالات بھی کچھ مختلف نہیں۔ موصوف بزعمِ خود لبرل، اور مذہبی انتہاپسندی کے سخت خلاف ہیں، لیکن فلسطین مخالف جذبات کے اظہار میں کسی تکلف و مداہنت سے کام نہیں لیتے۔ ان کا خیال ہے کہ ”فلسطینی ماضی میں جی رہے ہیں اور انھیں امن سے کوئی دلچسپی نہیں“۔ موصوف فلسطینیوں کی اراضی پر اسرائیلی بستیوں کی تعمیر جاری رکھنے کے حامی ہیں۔

(This article was first published in Friday Special)