امریکا ، روس اور چین جوہری جنون میں مبتلا

217

اسٹاک ہوم (انٹرنیشنل ڈیسک) امن پر تحقیق کرنے والے ادارے سپری نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ برس کے مقابلے میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں کمی ہوئی ہے، تاہم عالمی قوتیں جوہری ہتھیاروں کو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے زیادہ مہلک بنا رہی ہیں۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق دی اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ سپری کی تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکا، روس اور چین جوہری ہتھیاروں کو مزید مہلک اور جدید تر بنا رہے ہیں۔ جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں تو کمی دیکھی گئی ہے، لیکن وار ہیڈ کے ذخائر میں تشویشناک اضافہ دیکھا گیا ہے۔سپری کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رواں برس کے آغاز میں امریکا، روس، فرانس، چین، بھارت، پاکستان اسرائیل اور شمالی کوریا کے پاس مجموعی طور پر 13 ہزار 80 ایٹمی ہتھیار تھے جب کہ گزشتہ برس کے مقابلے میں اس میں 320 کی کمی آئی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گو ایسے وار ہیڈز جن کو معیاد پوری ہونے پر تلف کردیاجائے گا، اگر ان ہتھیاروں کو بھی چھوڑ دیا جائے تو گزشتہ برس سے اب تک جوہری ہتھیاروں کی تعداد 9 ہزار 380 سے بڑھ کر 9ہزار 620 ہو جائے گی، کیوں کہ نصب کرنے اور استعمال کے قابل ہتھیاروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔رپورٹ کے مطابق جوہری ہتھیاروں کی کمی اپنی جگہ لیکن ان ہتھیاروں کو پہلے سے زیادہ مہلک اور جدید بنانے سے جنگ کی صورت میں ہلاکتوں میں اضافے اور بڑے پیمانے پر تباہی کا خدشہ ہے۔ ان ہتھیاروں سے یا تو میزائلوں کو لیس کیا گیا ہے یا پھر فعال فوجی اڈوں پر نصب کیے گئے ہیں۔سپری کے محققین نے اپنی اس رپورٹ میں عالمی جوہری ہتھیاروں سے متعلق بعض تشویشناک رجحانات کی جانب اشارہ کیا ہے۔ سپری کے ایک محقق ہینس ایم کریسٹین کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر عالمی فوج کے ذخائر میں وار ہیڈ کی تعداد میں اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے، جو ایک تشویشناک بات ہے، کیوں کہ سرد جنگ کے بعد سے عالمی جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں گرنے کا رجحان جاری تھا۔