امریکا ایک دہشت گرد ریاست

615

۔31مئی کو امریکی ریاست اوکلا ہاما کے شہر ٹلسا میں سیاہ فاموں کے قتل عام پر 31مئی 1921 کو اس واقعے کے سو سال مکمل ہونے پر تقریبات ہوئیں۔ ایسی ہی ایک تقریب میں موجودہ صدر جو بائیڈن بھی شریک ہوئے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ اس قسم کی تقریب میں کوئی امریکی صدر شریک ہوا ہو انہوں نے اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ کے چند واقعات اتنے وحشت ناک سفاکانہ ہوتے ہیں جن کو بھلانا ممکن نہیں۔
یہ تو تھا امریکی صد ر کا بھولا پن، وہ شاید اپنی قومی تاریخ سے نا آشنا ہیں یا جان بوجھ کر تاریخ کو مسخ کررہے ہیں ویسے بھی سیکولر زنبیل سے جتنے بھی ڈھیلے نکلتے ہیں وہ تاریخ کو توڑنے اور مروڑنے اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں طاق ہوتے ہیں۔ ان کی ساری عمارت جھوٹ پر کھڑی ہے۔ بھلا کون سا آدمی ہوگا جس کو تاریخ سے ذرا سی بھی واقفیت ہو وہ امریکا کی وحشت ناکی اور سفّاکی سے نا آشنا ہوگا۔ انہوں نے چند واقعات کے بارے میں کہا کہ وہ اتنے وحشت ناک سفاکانہ ہوتے ہیں جن کو بھلانا ممکن نہیں یہ وہ ریاست ہے جو اپنی بنا سے لے کر آج تک دنیا میں سفّاکی اور وحشت ناکی کی علامت ہے اس تاریخی سفّاکی اور وحشت ناکی پر تو ایک ضخیم کتاب تحریر کی جاسکتی ہے اور وہ بھی شاید کم ہو۔
1442 سے پہلے صدیوں سے آباد ریڈ انڈین امریکا کے حقیقی باشندے امریکا کو اپنا وطن سمجھتے تھے اور یہ حقیقت تھی یہ سیاہ فام ریڈ انڈین وہاں قبائل کی شکل میں موجود تھے۔ لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ ان پر کیا قیامت بیتنے والی ہے جس کا عرصہ کتنا طویل ہوگا جو کرسٹوفر کولمبس کے سرزمین امریکا میں منحوس قدم رکھنے کے بعد شروع ہوگا۔ اس کے بعد جرائم پیشہ سفید فام یہاں لاکر آباد کیے گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے امریکا سفید فاموں کی آبادی اتنی ہوگئی کہ انہوں نے جرائم کی دنیا آباد کرلی اور پھر انہوں سے صدیوں سے آباد ریڈ انڈین کو اقلیت میں تبدیل کرنے کا قبیح کھیل شروع کردیا یہ کھیل وحشت ناکی اور سفّاکی پر مشتمل تھا۔ جس وقت کرسٹوفر کولمبس نے امریکا کی زمین پر قدم رکھا اس وقت ریڈ انڈین کی تعداد سولہ کروڑ کے لگ بھگ تھی۔ قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا گیا ایک نسلی تعصّب کا بیج بویا گیا اور لاکھوں کی تعداد میں ریڈ انڈین قتل کیے گئے ان قبائل کو ملک کے ویران علاقوں کی طرف دھکیلا گیا اور ان کے تمام قبائل کے لیے علاقے مختص کردیے گئے جن علاقوں میں یہ ایک قیدی کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے۔ یہ کاروائی ایک ایکٹ کے تحت کی گئی جو 1777 میں گوروں نے منظور کی تھی اس کاروائی کے لیے قانون حرکت میں آیا شہری علاقوں سے سیاہ فاموں کو بدترین تشدد کے ذریعے نکالا جاتا اور دور دراز علاقوں میں بھیجا جاتا کتنے ہی بھوک کی شدت اور بیماری میں جان سے گئے اور کتنے ہی پولیس کے بدترین تشدد کے وجہ سے مارے گئے۔ اتنے پر بس نہیں کیا گیا بلکہ یہاں چیچک کے جرثومے لاکر چھوڑے گئے اور جان بوجھ کر حفظان صحت اور اس بیماری سے بچنے کی تدابیر نہیں بتائی گئی اور نہ ہی عمل کرنے دیا گیا جس سے لاکھوں سیا فام موت کی نیند سوگئے۔ ریاستی سطح پر اتنی سفّاکی پر بھی بس نہیں کیا گیا بلکہ ایسے علاقوں میں ایسے بورڈنگ اسکول کھولے گئے جس میں سیاہ فام بچوں اور ان کے والدین کو رکھا جاتا تھا ان اسکولوں مقصد یہ تھا کہ یہ بہتر طور پر عیسائی مذہب پر کار بند ہوسکیں یہ اسکول کیتھولک چرچ کے زیرانتظام تھا۔ اس طرح کے بے شمار اسکول کھولے گئے ابھی حال ہی میں برٹش کولمبیا کے کیمولپس اسکول سے ایک اجتماعی قبر دریافت ہوئی جس میں سے 225 بچوں کی باقیات ملی ہیں یہ بورڈنگ اسکول کی اجتماعی قبر تو زنجیر کی ایک کڑی ہے کتنی ہی قبریں دریافت ہونی ہیں ان مظالم کی جو سفید چمڑی، نیلی آنکھوں اور بھورے بالوں والے گورے یہاں صدیوں سے کررہے ہیں۔ اگر تاریخ کے اوراق کو الٹ پلٹ کر دیکھا جائے تو اس مہذّب دنیا میں معلوم ہوگا کہ سفّاکی کی کتنی ہی داستانیں ہیں۔ امریکا کی بنیاد نسل کشی ہے۔ امریکا کی پوری عمارت دس کروڑ ریڈ انڈین کی لاشوں پر کھڑی ہے۔
دوسری جنگ عظیم میں یہ ریاست دنیا کے سامنے سب سے بڑے دہشت گرد کے طور پر اس وقت سامنے آئی جب اس نے اس وقت جاپان کے پر ایٹم بم حملہ کیا جب کہ جاپان اپنی شکست تسلیم کرچکا تھا اور مگر چونکہ انسانی خون اس کی من پسند غذا ہے اس نے رات کی تاریکی میں 6 اگست 1945 کو ہیر و شیما پر ایٹم بم گرایا اور ایک تخمینے کے مطابق ایک لاکھ چالیس ہزار انسانوں کو موت کی نیند سلادیا اور اس کے بعد یہیں پر بس نہیں کیا بلکہ انسانی خون کی پیاس نے اس کو 9اگست تک بھی چین نہیں لینے دیا اور اسی رات دوسرے شہر ناگا ساکی پر بھی دوسرا ایٹم بم گرایا جس سے 74 ہزار لوگ موت کی نیند سوگئے اور نا معلوم کتنے افراد ان حملوں سے زخمی ہوئے اور ایک عرصہ دراز تک اس کے تابکار اثرات سے تمام جانداروں اور ماحول متاثر ہوتے رہے ہیں اور آج 75 سال ہونے کے باوجود انسانیت کے جسم کے اس زخم سے خون رس رہا ہے۔ 1959 میں یہ عالمی دہشت گرد پانچ لاکھ فوجیوں کے ساتھ ویت پر چڑھ دوڑا اور ایک تخمینے کے مطابق گیارہ لاکھ شمالی ویت نام میں انسانوں کو اپنی درندگی کا نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتار دیا یہ جنگ 1975 تک جاری رہی اور بالاآخر ویت نام کے دو ٹکڑے کرکے وہاں سے اسے ذلّت کے ساتھ نکلنا پڑا۔
اس کی تجارت اقوام کے درمیان جنگیں کرانا اور اپنے ہتھیار دونوں فریقوں کو فروخت کرنا جنگ کو طول دینے کے لیے دونوں فریقوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکاتے رہنا۔ امریکا نے عراق کے خلاف ایک جھوٹ گھڑا کہ عراق کیمیائی ہتھیار موجود ہیں اس جھوٹ کو بنیاد بناکر جنگ کا آغاز کیا جس میں لاکھوں لوگ موت کے گھاٹ اتار دیے گئے مگر اس بات کا کوئی ثبوت آج تک نہ ملا کہ عراق کے پاس کیمیائی ہتھیار موجود ہیں۔ اس سے پہلے ٹوئن ٹاور پر حملے کا الزام القاعدہ اور اس کے سربراہ اسامہ بن لادن پر ڈال کر پورے لاؤ لشکر کے ساتھ افغانستان پر حملہ آور ہوا اکیس سال کی اس جنگ میں افغانستان پر لوہے اور بارود کی بارش ہوتی رہی جس کے نتیجے میں لاکھوں افغان موت کی نیند سلادیے گئے۔ مگر وہاں سے اسامہ بن لادن نہ ملے۔ اور نہ ہی ملّا عمر ہی ملے، مگر پورے افغانستان کو 48 ممالک کی کیل کانٹے سے لیس افواج کے ساتھ کھود ڈالا گیا وہاں امریکا بالواسطہ یا بلاواسطہ موجود ہے اور اپنے ہتھیار کی تجارت کر رہا ہے۔
تاریخ نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ کفر کی دنیا چاہیے کتنی بڑی سپر پاور کے شکل میں موجود ہو اگر اس کو ناک سے چنے چبوانے کی صلاحیت ہے تو وہ ہے جذبہ جہاد میں ہے اس کا اوّل تو انبیاء کی جدوجہد ہے اور امام المجاہدین سیدالاانبیاء کا میدان بدر سے شروع ہونے والا معرکہ ہے جو رومی اور قیصر کی شکست سے گزرتا ہوا آج دور حاضر میں 60 ہزار طالبان سے امریکا اور 48 ممالک کی ٹیکنالوجی سے لیس فوجی قوت ہے جو اپنے ڈائپر سنبھالتا ہوا افغانستان سے بھاگ رہا ہے بے شک فتح غلامان مصطفی کا اور شکست امریکا اور اس کے حواریوں کا نصیب۔