شاہی بگھی

261

اندرون ملک امن و امان اور عوام کا تحفظ عدلیہ کی ذمے داری ہے۔ مگر عدلیہ اپنی ذمے داری نبھانے میںکبھی سنجیدہ نہیں ہوئی۔ جس ملک میںسیکڑوں سیاسی جماعتیں ہوں وہاں پر سیاسی استحکام ممکن ہی نہیں۔ ارکان اسمبلی اور سینیٹ میں براجمان اشخاص کا یہ مسئلہ ہی نہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر اور مناسب ہوگا کہ عوامی مسائل ان کی نظر میں کوئی معنی ہی نہیں رکھتے۔ پنشن پر ٹیکس کی خبریں پنشن یافتہ افراد کی دھڑکنیں ڈوبتی ہوئی کشتی کی طرح ہچکولے کھا رہی ہیں اور گہہ خسرو کے مکین مطالبہ کررہے ہیں کہ انہیں جو مراعات اور سہولتیں میسر ہیں انہیں تاحیات برقرار رکھا جائے اگر دیانت داری سے سوچا جائے تو عدلیہ کی ذمے داری ہے کہ ان معاملات کا ازخود نوٹس لے۔ وطن عزیز کا بچہ بچہ اس حقیقت کا ادارک رکھتا ہے کہ اگر عدلیہ نے نوٹس نہ لیا تو خودکشی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ یقینی امر ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کی حکومت میں مہنگائی اوربے روزگاری کا جو سونامی آیا ہے اس کی بنیادی اور اہم وجہ یہ ہے کہ خان صاحب کی شاہی بگھی میں بیٹھی سواریاں مانگے تانگے کی ہیں۔ انہیں کوئی ہدایت جاری کرنا خان صاحب کے لیے ممکن ہی نہیں۔ کیونکہ یہ سواریاں اتر گئیں تو شاہی بگھی خالی ہوگئی اور حکومت زمین بوس ہوجائے گی اگر مقتدر شخصیات ملک میں سیاسی انتشار ختم کرنا چاہتی ہیں تو سیاسی جماعتوں کے لیے کچھ اصول اور کچھ ضوابط تخلیق کرنا ہوں گے۔ جو جماعتیں ان اصولوں اور ضوابط پر پوری نہ اُتریں انہیں عوام کے سروں سے اُتار دینا چاہیے ملک میں سیاسی فقدان اور سیاسی انتشار کی بڑی وجہ ایسی سیاسی جماعتیں ہیں جو دو تین نشستیں جیت کر عوام اور حکومت کے لیے عذاب بن جاتی ہیں۔ برسر اقتدار پارٹی کو اپنی حکومت بہت عزیز ہوتی ہے اور وہ ہر قیمت پر ملک پر مسلط رہنا چاہتی ہے یوں چند نشستوں کی حامل سیاسی پارٹیاں اپنی مرضی کے دل پسند عہدے اور مراعات لینے کا مطالبہ کرتی ہیں۔ اگر حکومت ان کا مطالبہ نہ مانے تویہ بھی میں نہ مانو کی گردان شروع کردیتی ہیں اور حکومت کسی کی بھی حکمران ان کے حضور سرنگوں ہونے ہی میں عافیت سمجھتی ہیں۔ المیہ یہ بھی ہے کہ حکومت پریشر گروپ کے سامنے گھٹنے ٹیک کر عوام کی کمر توڑ دیتی ہے۔ 55روپے فروخت ہونے والی چینی 110روپے پر ہوئی تو کیا یہ ضروری نہیں تھا کہ عدلیہ از خود نوٹس کے ذریعے اس ہوش وبا مہنگائی کا جواب طلب کرتی اور بڑھی ہوئی قیمت پر حکم امتناع جاری کرتی۔ مگر عدلیہ کی خاموشی نے حکومت کی حوصلہ افزائی کی اور اس نے بڑھی ہوئی قیمتوں پر کارروائی کرنے کے بجائے ایک ایسی کمیٹی تشکیل کی جو مہنگائی کے اسباب کی نشان دہی کرے۔ حالانکہ عدلیہ اور عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب بھی کسی معاملے کو دفن کرنا ہوتا ہے کمیٹیاں تشکیل دی جاتی ہیں اور وہ مہنگائی کا سدباب کرنے کے بجائے مسائل پر وقت کی اتنی دھول ڈالتی ہیں کہ سارے مسائل اس میں دفن ہوجاتے ہیں۔
کراچی سے سرگودھا جانے والی ٹرین گھوٹکی کے قریب ٹریک سے اُتر گئی اور آنے والی ٹریک پر جاگری اور پھر سرسید ایکسپریس بھی اس سے ٹکرا گئی مگر حادثہ سے بڑا سانحہ یہ ہوا کہ ڈھائی گھنٹے تک ریلوے حکام کو اس کی خبر ہی نہ ہوئی۔ وزیر اعظم عمران خان نے ریلوے حفاظتی انتظام میں خرابی کی مکمل تحقیقات کا حکم دے دیا ہے گویا پھر کمیٹی بنا کر معاملے کو پُر کرنے کا تہیہ کرلیا گیا ہے۔ مگر اس دل خراش اور اذیت ناک حادثے پر شاہ کے وفاداروں کے بیانات انتہائی افسوناک اور صاحب اختیار لوگوں کی بے حسی کو اور نمایاں کردیا ہے۔ یہ کیسی بے حسی اور دیدہ دلیری ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت آدھی سے زیادہ مدت پوری کرچکی ہے۔ مگر ہر خرابی کا ذمے دار پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کو ٹھیراتی ہے۔ گویا وطن عزیز کی حکمرانی فلمی ادارکاری جیسی ہے کہتے ہیں فلمی ہیروئن بننے کے لیے شرم و حیا سے دستبرداری کا عملی ثبوت پیش کرنا ہوتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں میں بھی شرم و حیا نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔
فاروق اعظم ریلوے کے وزیر تھے ان کے دور میں ایک ایسا ہی واقعہ رونما ہوا تھا موصوف سے پوچھا گیا تھا کہ بھارت کے وزیر ریلوے دو ٹرینیں پر نے استعفا دے دیا ہے آپ کب استعفا دے رہے ہیں۔ تو موصوف نے جواب دیا تھا کہ حادثہ کا ذمے دار ٹرین کا ڈرئیور تھا اسے مستعفی ہونا پڑے گا۔ میں بھارتی وزیر ریلوے کی طرح عقل سے پیدل نہیں ہوں کہ ڈرائیور کی غلطی پر استعفا دے دوں۔